پاکستانی سرزمین پر کب اور کتنے شہاب ثاقب گرے؟

13 Aug, 2020 | 02:08 PM

Azhar Thiraj

سٹی 42: شہاب ثاقب دراصل سیارچوں  یا دم دار ستاروں سے خارج ہونے والے ٹھوس پتھر ہوتے ہیں جو کر ہ ارض کا احاطہ کرنے والی فضا سے گزر کر سطحِ زمین تک پہنچتے ہیں۔عالمی تنظیم میٹیوریٹیکل سوسائٹی کی جانب سے جاری کیے جانے والے ڈیٹابیس کے مطابق 18 ویں صدی سے 2020 تک کل 17 شہابِ ثاقب پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً صوبہ پنجاب اور سندھ میں گرے ہیں۔اس دوران ہوا کے ساتھ رگڑ، دبائو یا کیمیائی تعامل کے باعث ان میں آگ بھڑک اٹھتی ہے جس کے نتیجے میں ان سے توانائی کا اخراج ہوتا ہے اور یہ شہابیے یا محض آگ کے گولوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، جنھیں ٹوٹتے تارے بھی کہا جاتا ہے۔

 پاکستان میں شہابِ ثاقب گرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ عالمی تنظیم میٹیوریٹیکل سوسائٹی کی جانب سے جاری کیے جانے والے ڈیٹابیس کے مطابق 18 ویں صدی سے سنہ 2020 تک کل 17 شہابِ ثاقب پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً صوبہ پنجاب اور سندھ میں گرے ہیں۔ان میں سے بلوچستان کے علاقے ڑوب میں گرنے والے صرف ایک ’ڑوب میٹیورائٹ‘ کی ہی باقاعدہ تصدیق اور تجزیہ ہو سکا ہے۔ گلگت بلتستان اور پنجاب کے ضلع بھکر میں بھی شہاب ثاقب گرے جن کی خبریں تو میڈیا کی زینت بنیں مگر ان کے بارے میں کچھ معلومات دستیاب نہیں ہیں اور نا ہی اب تک انھیں میٹیوریٹیکل ڈیٹابیس میں درج کیا گیا ہے۔ماہرین فلکی حیاتیات کے مطابق یہ شہاب نیے مائیکرو میٹر سے لے کر بڑے حجم کے چٹانی پتھروں جتنے ہو سکتے ہیں اور یہ مختلف طرح کی دھاتوں، نمکیات اور نامیاتی و غیر نامیاتی مرکبات کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ 

 میٹیوریٹیکل ڈیٹا بیس کے مطابق موجودہ صدی میں پاکستان میں شہابِ ثاقب گرنے کے محض دو واقعات، سنہ 2012 میں لاڈکی (سندھ) اور سنہ 2020 ژوب (بلوچستان)، میں ہی ہوئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق سنہ 2017 میں گلگت اور سنہ 2018 میں بھکر (پنجاب) میں ایسے دو واقعات ہوئے تھے جنھیں میڈیا نے نمایاں بھی کیا مگر بعد ازاں یہ پتھر پراسرار طور پر غائب کر دیے گئے۔

9 جنوری 2020 کی شام کو بلوچستان کے علاقے ڑوب میں زوردار دھماکوں کے ساتھ تقریباً 18.9 کلوگرام جسامت کا ایک بڑا شہابِ ثاقب اور ساتھ بہت سے چھوٹے پتھر گرے جنھیں مقامی افراد نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ان خلائی پتھروں کا گرنا کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔حکومتِ پاکستان خصوصا وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ناصرف ان واقعات کو درست طریقے سے ریکارڈ کیا جائے بلکہ ان کی فروخت بھی قانونی طریقے سے ہو۔

مزیدخبریں