شہباز شریف نے اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی بند کرنے کی حمایت کر دی

12 Nov, 2024 | 01:06 AM

Waseem Azmet

سٹی42: پاکستان  کے وزیراعظم شہباز شریف نے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی روکنے اور جنگی جرائم کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر دیا۔ 

شہباز شریف نے سعودی عرب  کے دارالحکومت ریاض میں غزہ  جنگ اور لبنان کی صورتحال پر بلائے گئے مشترکہ عرب اسلامی سربراہی اجلاس  میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے پہلی مرتبہ یہ مطالبہ کیا کہ بین الاقوامی برادری اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہم یبند کرے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے عرب اسلامی سربراہی اجلاس سے خطاب میں کہا کہ دنیا اسرائیل کے جرائم سے صرفِ نظر کر رہی ہے، غزہ میں انسانی بحران تصور سے بڑھ کر ہے ۔ 

شہباز شریف  نے کہا کہ اسرائیل نے تمام حدیں پار کر کے انسانی تحفظ کے بین الاقوامی قانون کے چیتھڑے اڑا دیئے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ فوری طور فلسطینی ریاست قائم کی جائے، جس کا دارالحکومت یروشلم ہو۔ 

وزیراعظم شہباز نے کہا کہ بھوک، افلاس اور قحط نے غزہ میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔  غزہ میں فوری جنگ بندی وقت کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ وزیراعظم شہباز شریف نے اسرائیل کے لبنان پر حملوں کی بھی مذمت کی۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم سے امن کو خطرات لاحق ہیں، اسرائیل کے ایران کے خلاف اقدامات پر بھی شدید تشویش ہے، عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔

اسلحہ کی فروخت پر پابندی یا سپلائی محدود کرنے کے فیصلے

اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کرنے کے متعلق شہباز شریف نے جو مطالبہ کیا اس پر فرانس اور دینا کے کئی ممالک بھی متفق ہیں۔  انگلینڈ نے جو اسرائیل کو ہتھیار فروخت کرنے والا ایک اہم ملک ہے، ساڑھے تین سو مین سے پچاس ہتھیاروں کی سپلائی کے معاہدے منسوخ کر دیئے ہیں۔  سپین نے ایک سال سے اسرائیل کو کوئی ہتھیار فروخت نہیں کئے، اٹلی نے سات اکتوبر کو  غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے اسرائیل کے ساتھ ہتھیاروں کی فراہمی کا کوئی نیا معاہدہ نہیں کیا، 


برطانیہ

سکریٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی نے پیر کے روز اعلان کیا کہ لندن 350 میں سے 30 موجودہ اسلحہ لائسنس معطل کر رہا ہے۔ انہوں نے دو ماہ کے اندرونی جائزے کا حوالہ دیا جس میں پایا گیا کہ ایک قابض طاقت کے طور پر اسرائیل نے "غزہ کی آبادی کی بقا" کے لیے ضروری سامان کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اپنا فرض پورا نہیں کیا۔

اس فیصلے پر، حقوق گروپوں کی جانب سے تنقید کی گئی ایک نصف اقدام، اس میں F35 جدید لڑاکا طیاروں کے لیے برطانیہ کے تیار کردہ پرزے شامل نہیں ہیں جو اسرائیل استعمال کر رہا ہے۔

اٹلی

وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے جنوری میں اعلان کیا تھا کہ روم نے 7 اکتوبر کے بعد فیصلہ کیا ہے – جس دن حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا، جس سے غزہ میں جنگ چھڑ گئی تھی – اسرائیل کو مزید ہتھیار نہیں بھیجے جائیں گے۔ تاہم، حکومت نے اس کے بعد تسلیم کیا ہے کہ پہلے دستخط کیے گئے معاہدوں کا احترام کیا جا رہا ہے۔

لندن میں قائم ریسرچ چیریٹی ایکشن آن آرمڈ وائلنس کے مطابق، اٹلی اسرائیل کو فوجی سازوسامان فراہم کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے، لیکن اسرائیل کے ہتھیاروں کی کل درآمدات میں اس کا حصہ 1 فیصد سے بھی کم ہے۔

سپین

ہسپانوی وزیر خارجہ ہوزے مینوئل الباریس نے جنوری میں کہا تھا کہ اسپین نے 7 اکتوبر سے اسرائیل کو ہتھیار فروخت نہیں کیے ہیں۔ مئی میں، حکومت نے مزید آگے بڑھتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کو ہتھیار لے جانے والے بحری جہازوں کو ہسپانوی بندرگاہوں پر ڈوبنے سے روک دے گی۔ میڈرڈ غزہ جارحیت پر یورپ کی سب سے تنقیدی آوازوں میں سے ایک رہا ہے۔

کینیڈا

کینیڈا کی پارلیمنٹ نے مارچ میں اسرائیل کو مستقبل میں فوجی فروخت روکنے کے لیے ایک غیر پابند ووٹ میں اتفاق کیا تھا۔ وزیر خارجہ میلانی جولی نے اس وقت ٹورنٹو سٹار کو بتایا کہ ہتھیاروں کی ترسیل بند ہو جائے گی: "یہ ایک حقیقی چیز ہے،" انہوں نے کہا۔

بیلجیم

بیلجیئم، ایک وفاقی ریاست میں، مقامی حکام نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی لگا دی ہے۔ بیلجیئم کی حکومت نے بھی یورپی یونین پر پابندی کے لیے مہم چلائی ہے۔

نیدرلینڈز

ہالینڈ کی ایک عدالت نے فروری میں حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ اسرائیل کو F35 لڑاکا طیاروں کے پرزوں کی فراہمی روک دے کیونکہ بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزیوں کے واضح خطرہ ہیں۔ تاہم، اس حکمنامے میں امریکہ جیسی ریاستوں کو بھیجے گئے اجزاء کا احاطہ نہیں کیا گیا جو اس کے بعد اسرائیل کو فراہم کیے جاسکتے تھے۔

فرانس

فرانس کے صدر میکرون نے نہ سرف خود اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی کچھ عرصہ سے بند کر رکھی ہے بلکہ وہ امریکہ اور دوسرے اتحادی ممالک پر بھی زور دے رہے ہیں کہ اسرائیل کو لبنان اور غزہ مین جنگ بندی پر مجبور کرنے کے لئے اسے ہتھیاروں کی فروخت بند کی جائے۔

اسلحہ کی فروخت پر کوئی پابندی نہیں لگائیں گے، امریکہ، جرمنی اور ڈنمارک کا ؤقف
ہتھیاروں کی فروخت پر تنازعہ کی وجہ سے، امریکہ اور بہت سے دوسرے ممالک اپنے ہتھیاروں کی تجارت کی مکمل تفصیلات ظاہر نہیں کرتے۔ تاہم، سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، واشنگٹن اسرائیل کا سب سے بڑا آرمز سپلائر ہے، جو اسرائیل کے امپورٹ کئے جا رہے اسلحہ میں سے  اندازاً 69 فیصد ہتھیار فراہم کرتا ہے۔

جو بائیڈن نے اسرائیل کے طرز عمل پر تنقید کرتے ہوئے اس کی غزہ میں بمباری مہم کو "اندھا دھند" قرار دیا ہے، لیکن صدر  بائیڈن نے امریکی بموں کی فروخت روکنے سے انکار کر دیا۔ بائیڈن انتظامیہ نے مئی میں اسرائیل کو بھاری، بنکروں کو تباہ کرنے والے بموں کی ترسیل معطل کر دی تھی لیکن جولائی میں کچھ ترسیل دوبارہ شروع کر دی تھی۔ یہ بم اب لبنان میں استعمال کئے جا رہے ہیں جہاں حزب اللہ کے زیر زمین انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے کا یہی مؤثر ذریعہ ہیں اور امریکہ جو خود حزب اللہ کا سب سے بڑا وکٹم رہا ہے،  حزب اللہ کی قیادت اور انفراسٹرکچر کے خاتمہ کے عمل کے دوران اسرائیل کا خٓموش مددگار رہا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کو تشویش ہے کہ حزب  اللہ کے خلاف شہری علاقوں میں کارروائیوں کے دوران سویلین بھی نشانہ بن رہے ہیں۔

جرمنی

سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، اسرائیل کو ہتھیاروں کی عالمی برآمدات کا تقریباً 30 فیصد جرمنی سے آتا ہے۔ فروخت میں پورٹیبل اینٹی ٹینک ہتھیار اور خودکار یا نیم خودکار آتشیں اسلحہ کے گولہ بارود شامل ہیں۔

برلن اسرائیل کی حمایت کو ہولوکاسٹ کی ذمہ داری کے باعث باقی دنیا کی نسبت مختلد ززاویہ سے دیکھتا ہے۔

ڈنمارک

ڈنمارک اسرائیل کے  F35 پروگرام میں حصہ ڈالتا ہے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت متعدد حقوق گروپوں کی طرف سے عدالتی درخواست کا مقابلہ کر رہا ہے جو اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت کو روکنے کی کوشش کرتی ہے۔

انڈیا

انڈیا بھی اسرائیل کو فوجی سازو سامان کی محدود سپلائی کرتا ہے تاہم اس کے فراہم کردہ سامان کی نوعیت اور حجم کے متعلق معلومات قلیل مقدار میں دستیاب ہیں۔

مزیدخبریں