ویب ڈیسک: چیف جسٹس اطہر من اللہ ن اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ 9 اپریل کو تجزیہ کاروں نے اپنے تجزیوں سے مارشل لا لگا دیا تھا، میڈیا فوجی گاڑیاں اور ہیلی کاپٹر دکھا رہا تھا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی کی ایف آئی اے کی جانب سے ہراساں کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔
وکیل فیصل چودھری ایڈووکیٹ نے کہا کہ صحافی سعودی عرب سے واپس نہیں آ رہے، انہیں خدشہ ہے کہ ان کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔عدالت نے ڈائریکٹر ایف آئی اے کو اختیارات کا غلط استعمال نا کرنے کا حکم دے دیا۔
صدر پی ایف یو جے نے کہا کہ ہر حکومت ایف آئی اے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے اور یہ گورنمنٹ بھی کرے گی، ہم چاہتے ہیں کہ پٹیشن نمٹانے کے بجائے ملتوی رکھی جائے تاکہ ہماری بھی تسلی رہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 9 اپریل کی ٹرانسمیشن دیکھیں، سارے تجزیہ کاروں نے اپنے تجزیوں سے اس دن تو مارشل لا ہی نافذ کر دیا تھا، میڈیا آرمی کی گاڑیاں اور ہیلی کاپٹر دکھا رہا تھا، میں گھر پر بیٹھا تھا اور ٹی وی پر چل رہا تھا کہ چیف جسٹس عدالت پہنچ گئے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے فواد چودھری سے کہا کہ آپ بطور رکن اسمبلی ڈی نوٹیفائی نہیں ہوئے ، تجویز ہے اسمبلی ہی جا کر توہین مذہب اور ایف آئی اے کارروائیوں جیسے معاملات حل کروائیں۔
فواد چوہدری نے جواب دیا کہ مقبوضہ اسمبلی میں جا کر کیا کریں ، الیکشن کے بعد ہی اس میں بیٹھیں گے۔
سماعت کے بعد بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ میں کہہ چکا ہوں مقبوضہ اسمبلی واپس نہیں جائیں گے۔