سٹی42: پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ کے 52 ارکان اپنی نشست کی چھ سال کی مدت پوری ہونے پر آج ریٹائرڈ ہوگئے ہیں ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 2 اپریل کو سینیٹ انتخابات کرانے کا اعلان کردیا۔آج ریٹائر ہونے والے 52 سینیٹر 2018 میں منتخب ہوئے تھے۔
مسلم لیگ ن کے12، پاکستان پیپلز پارٹی کے 12اور پی ٹی آئی کے 8ر سینیٹر ریٹائرڈ ہو گئے۔ جمیعت علماء اسلام ، پشتونخواہ قومی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے بھی دو،دو سینیٹر ریٹائرڈ ہوگئے ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے 6 سینیٹر ایوان بالا سے رخصت ہوئے گئے، جماعت اسلامی،ایم کیو ایم اورمسلم لیگ فنکشنل کا ایک ایک سینیٹرز ریٹائرڈ ہوا۔
سابق " فاٹا" کے چار سینیٹرز بھی بالآخر ریٹائرڈ ہوگئے۔ اب فاٹا سے کوئی سینیٹر منتخب ہو کر ایوان بالا مین نہیں آئے گا۔ یہ سینیٹر "کئی سامل پہلے ختم ہو چکے" وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں" کی آخری نشانی تھے۔
اسلام آباد سے دو سینٹر اسد جونیجو اور مشاہد حسین سید بھی ریٹائرڈ ہوگئے.
آج ریٹائر ہونے والے 52 سینیٹروں میں سندھ اور پنجاب کے 12،12 سینٹر شامل ہیں۔ خیبرپختوانخوا اور بلوچستان کے 11،11سینیٹر ریٹائرڈ ہوگئے ہیں۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین مرزا محمد آفریدی بھی ریٹائرڈ ہوگئے۔ سینیٹراسحاق ڈار،رضا ربانی،مولا بخش چانڈیو، فروغ نسیم اور مظفر شاہ بھی ریٹائرڈ ہوگئے۔
شہزاد وسیم،مصدق ملک، ڈاکٹر آصف کرمانی، ولید اقبال،حافظ عبدالکریم اور سینیٹر سیمی ایزدی ریٹائڑد ہونے والوں میں شامل ہیں۔
انوارالحق کاکڑ اور شوکت ترین کی نشست استعفی کے باعث پہلی ہی خالی ہیں
سینیٹر احمد خان، کہدہ بابر،شفیق ترین، طاہر بزنجو، اور نصیب اللہ بازئی بھی ریٹائرڈ ہوگئے
سابقہ فاٹاسے ڈپٹی چیئرمین مرزا آفریدی،ہدایت اللہ خان ، ہلال الرحمان اور شمیم افریدی ریٹائرڈ ہوگئے
پی ٹی آئی کے ریٹائر ہونے والے سینیٹر
پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل جاوید ،پیر صابر شاہ ، طلحہ محمود ، مشتاق احمد، دلاور خان ،اعظم سواتی اور روبینہ خالد بھی ریٹائر ہو گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے اب قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں کوئی منتخب رکن نہیں ہیں اس لئے اب سینیٹ کی 52 نشستوں پر ری الیکشن میں پی ٹی آئی اپنا کوئی سینیٹر نہیں بنوا سکے گی۔
مشاہد حسین کی پارلیمنٹ میں واپسی کا امکان مخدوش
مشاہد حسین کی سینیٹ سے رخصتی کے بعد ان کی پارلیمنٹ میں واپسی کا اب دور دور تک کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ وہ مسلم لیگ نون کے رکن ہین لیکن کافی عرصہ سے مسلم لیگ نون کی پالیسیوں کے برعکس سیاست کر رہے ہیں۔ انہوں نے اب تک کسی اور پارٹی میں شمولیت کا بھی کوئی عندیہ نہیں دیا۔ مشاہد حسین صحافت چھوڑ کر نواز شریف کی دوستی کے سبب سیاستدان بنے تھے۔
جماعت اسلامی اور مسلم لیگ فنکشنل، باپ اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی ایک ہی کشتی کے سوار
جماعت اسلامی کو 8 فروری کو منتخب ہونے والی قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں سند ھ کے سوا کوئی نشست نہیں ملی جبکہ بلوچستان عوام پارٹی کو بلوچستان مین بہت تھوڑی نشستیں ملی ہیں، یہی حال پشتونخﷺا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ فنکشنل کا ہے۔ اب ان جماعتوں سے کسی سیاستدان کے نئے الیکشن مین سینیٹ کی نشست حاصل کرنے کا امکان بظاہر ختم ہو گیا ہے تاہم پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو سنی اتحاد کونسل اور نیشنل پارٹی کو پاکستان پیپلز پارٹی سے ایک آدھ نشست مل جانے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔
ایم کیو ایم، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کا فائدہ
سینیٹ کی 52 نشستوں پر انتخاب میں مسلم لیگ نون ، پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ہی اپنی عددی قوت برقرار رکھنے کا اسے بڑھانے مین کامیاب ہو سکین گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو سندھ کے ساتھ بلوچستان میں اور قومی اسمبلی میں گزشتہ الیکشن سے زیادہ نشستیں ملی ہیں جبکہ مسلم لیگ نون کو پنجاب کے ساتھ بلوچستان میں بھی نشستیں کی ہیں اور قومی اسمبلی میں بھی اس کی عددی قوت گزشتہ الیکشن کے بعد بننے والی قومی اسمبلی سے کافی بہتر ہے۔
سینیٹ کے الیکشن کا شیڈول آج جاری ہو گا، الیکشن 2 اپریل کو ہو گا
الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی شیڈول 14 مارچ کو جاری کیا جائے گا، جبکہ کاغذات نامزدگی آج سے ہی الیکشن کمیشن سیکریٹریٹ اور صوبائی الیکشن کمشنرز پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے دفاتر سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
ترجمان نے مزید بتایا کہ امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی 15 اور 16 مارچ کو متعلقہ ریٹرننگ آفیسرز کے دفاتر میں جمع کروا سکتے ہیں جبکہ پولنگ 2 اپریل کو ہوگی۔