نواز شریف پر جوتا،خواجہ آصف پر سیاہی پھینکنے کیخلاف مذمتی قرارداد جمع

12 Mar, 2018 | 12:26 PM

(قذافی بٹ)مسلم لیگ ن کے سپریم لیڈر نواز شریف پر جوتااور وفاقی وزیر خواجہ آصف پر سیاہی پھنکنے کیخلاف اسمبلی میں مذمتی قرارداد جمع کروا دی گئی، کسی شخص پر جوتا یا سیاہی پھینکنے سے کیاسزاہوسکتی ہے؟؟میاں نوازشریف پرجوتاپھینکنے کے واقعہ کے بعداس جرم کی سزاپرقانونی ماہرین میں نئی بحث شروع ہوگئی۔

تفصیلات کے مطابق قرارداد مسلم لیگ(ن) کی رکن حنا پرویز بٹ کی جانب سے جمع کرائی گئی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کا ایوان مسلم لیگ ن کے سپریم لیڈرمیاں نواز شریف پر جوتا اور وفاقی وزیر خواجہ آصف کے چہرے پر سیاہی پھنکنے کے واقعے کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔ بعض قوتیں میاں نواز شریف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوف زدہ ہیں ۔ کیونکہ نا اہلی کے بعد بھی ان کی مقبولیت میں کمی واقعہ نہیں ہو رہی بلکہ مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہےاس واقعے سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے ،ایسے خطرناک واقعات کی حوصلہ افزائی کرنا شرم کا باعث ہے ۔ قرارداد مین کہا گیا ہے کہ مہذب معاشرے میں احتجاج کا ایسا طریقہ کار ہرگز درست نہیں ہے ہر کسی کو ایسے واقعات کی مذمت کرنی چاہیے ناکہ اس پر سیاست چمکائی جائے گزشتہ کچھ عرصے سے ایک سیاسی جماعت کی طرف سے نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کی گھنوؤنی سازش کی جا رہی ہے جوکہ انتہائی قابل مذمت ہے ، قرارداد مین کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو اخلاقیات کا درس دیں اور ان کو منتخب نمائندوں کی عزت و تکریم کرنے کی ہدایات دیں۔

اتوار کے روزجامعہ نعیمیہ میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف پرتقریب کے دوران ایک شخص نے جوتاپھینک دیا جس کے بعدہرطرف یہی خبرموضوع بحث بن گئی, ملزم نے جوتاکیوں پھینکا؟ یہ حرکت کس نے کرائی؟ سمیت جہاں کئی سوالات اٹھائے گئے وہیں ہفتے کے پہلے ورکنگ دن کے آغازپرہی ایک نئی بحث شروع ہوگئی۔قانون میں اس جرم کی سزاکیاہے؟ قید؟؟ جرمانہ؟ دونوں سزائیں یاپھرکون سی سزا دی جاسکتی ہے؟ قانونی ماہرین اس جرم کے بارے میں کتابوں کے اوراق کھنگالتے رہے کہ کوئی شق مل جائے۔

یہ خبر بھی پڑھیں :  سٹی42 کی ٹیم نے ٹرک ڈرائیوروں کو لوٹنے والا جعلی وارڈن بے نقاب کر دیا

زیادہ تروکلاء کاکہناہے کہ کسی پرجوتایاسیاہی پھینکنے پرسزاکے بارے میں قانون میں کچھ ذکر موجود نہیں ہے اور  یہی وجہ ہے کہ ایسے واقعات بڑھ رہے ہیں، قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ اس سلسلے میں قانونی سازی وقت کی ضرورت ہے۔

مزیدخبریں