تحریر: روزینہ علی
دنیا بھر میں چائلڈ لیبر کے خاتمے کا عالمی دن آن پہنچا ہے، جی ہاں ہر سال 12 جون کو یہ دن منایا جاتا ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی کئی سماجی ادارے، تنظیمیں بڑے ہوٹلوں میں اے سی میں بیٹھ کر اس پر بات کریں گے۔ بچوں سے ہمدردی کریں گے لیکن کاش کوئی ٹھنڈے ائیر کنڈیشنڈ کمروں سے نکل کر بچوں کو ایک خوبصورت دن کا تحفہ دیتا۔
خیر مجھے بھی رپورٹ بنانی تھی تو اسلام آباد میں قریب ہی جی سیون میں کھڈا مارکیٹ چلی گئی۔ میں پہلے اس مارکیٹ کے سامنے سے گزرتی تھی لیکن کبھی آگے نہیں گئی تھی، شدید گرمی تھی، تیز گرم ہوا کے تھپیڑے موسم کی سختی کا خوب احساس دلا رہے تھے لیکن رپورٹ بنانے کے لیے موسم کی سختی کو نظر انداز کر کے جانا پڑا۔ ویسے بھی مارکیٹ قریب ہی تھی لیکن میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اندر جو ٹوٹی پھوٹی گاڑیوں کی ورکشاپس کا جال بچھا ہے، یہاں بے شمار بچے مزدوری کرتے ہونگے، مکینک کا پیشہ اپنائے بچے اپنے کام میں مصروف تھے. اندازہ تو دیکھتے ہی ہو گیا کہ گزرتے وقت کے ساتھ چائلڈ لیبر میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔
میں آگے بڑھی، ایک چھوٹا سا بچہ فضل عباس اندازاً آٹھ یا دس سال کا بچہ ہوگا اس کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ بچہ اپنا کام کرتا رہا میں نے سلام کیا تو مسکرا کر اس نے جواب دیا۔ بچے کے ساتھ گفتگو ہوئی تو دل افسردہ ہوا. بچے سے جب جانا کہ کتنے عرصے سے کام کر رہے ہو؟؟ اس نے کہا تین ماہ سے یہاں پر ہوں، میں نے پوچھا ایک دن کا کتنا کماتے ہو؟؟ بچے نے کہا صرف 100 روپیہ دن کا۔ میں نے کہا پڑھنے کا شوق ہے؟ سکول کیوں نہیں جاتے؟؟ بچے نے جواب دیا سکول جانے کا شوق نہیں ہے، میں پڑھنا نہیں چاہتا بس کمانا چاہتا ہوں. میں نے کہا بڑے ہو کر کیا بنو گے؟؟ بچے نے جواب دیا کہ کوئی دوکان کھول لوں گا لیکن پڑھنا نہیں ہے۔ میں نے اصرار کیا کہ کیا گھر سے کسی نے زبردستی بھیجا ہے؟ بچے نے کہا نہیں اپنی مرضی سے کماتا ہوں کیوں کہ پڑھنے کا شوق نہیں۔
میں اٹھی ذرا آگے بڑھی ایک اور بچے ارسلان شاہ سے بات کی اور وہ بھی اندازاً آٹھ سے دس سال کا بچہ تھا میں نے پوچھا یہاں کس نے کمانے کے لیے بھیجا اس بچے نے کہا کہ ماں باپ فوت ہو گئے، پھپھو نے مزدوری پر بھیجا ہے کہ اب کما کے آؤ۔اس بچے کو بڑے ہو کر فوجی بننے کا شوق ہے۔
ان بچوں کو مکینک کی ٹریننگ دینے والے سے بات ہوئی تو اس نے کہا بیشتر بچے ایسے ہیں جن کے ماں باپ یا رشتہ دار غربت سے تنگ آکر انہیں یہاں چھوڑتے ہیں تاکہ بچہ کچھ کام سیکھ جائیں لیکن اس میں قصور وار حکومت ہے جو باتیں تو کرتی ہے لیکن اقدامات نہیں کرتی۔ حکومت کو ان کے لیے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا.
بات تو سچ ہے حکومت سنجیدہ ہو جائے تو یہ اتنا مشکل نہیں لیکن آئے دن بڑھتی مہنگائی نے غربت کی زندگی بسر کرنے والوں کے لیے ایک وقت کی روٹی بھی مشکل بنا دی ہے۔
خیر ذرا آگے چلی تو ایک اور چودہ سالہ بچے احسان سے بات کی جو گاڑی ٹھیک کرنے میں مصروف تھا ۔ محنت اور لگن سے کام کرنے والے اس بچے نے بھی یہی جواب دیا کہ پڑھنے لکھنے کا کوئی شوق نہیں، بس کام کرنا ہے پیسہ کمانا ہے۔
کھڈا مارکیٹ میں ہر طرف مکینک کا پیشہ اپنائے بچے اس گرمی میں کام کرتے دکھائی دیئے۔ میں نے آبپارہ مارکیٹ کی راہ لے لی جہاں بہت سے بچے منتظر تھے کہ کوئی گاڑی دھونے، صاف کرنے کے لیے مل جائے۔ وہاں ایک پٹھان بچے سے ملاقات ہوئی جس کا نام ہے خزام اور اس کی عمر تقریباً 11 سال ہے۔ اس نے کہا کہ دو سال سے وہ یہاں گاڑیاں صاف کر رہا ہے، باپ بیمار ہے ایکسیڈنٹ کے بعد باپ کمانے سے قاصر ہے تو بس مجبوری نے کتابیں اور بستہ چھین لیا ۔ تیسری جماعت کے بعد پڑھائی چھوڑ دی۔ میں نے کہا بڑے ہو کر کیا بنو گے؟؟ کیا خواب ہے؟؟ تو بچے نے افسردگی اور مایوسی سے جواب دیا کہ اب کوئی خواب نہیں ہے، خواب پہلے ہی ٹوٹ گئے اب یہاں کیا خواب دیکھیں۔ بس کمانا ہے۔ اب بہت سارا پیسہ کمانا ہے۔
میں آبپارہ سے جی نائن کی طرف گئی تو لال بتی کے جلنے کا انتظار کرتے بچے دکھائی دیئے جن میں کچھ گاڑیاں صاف کرنے والے تھے تو کچھ بھیک مانگنے والے، سگنل پر رُکتی گاڑیوں میں موجود افراد تلخ اور حقارت بھری نظروں سے بچوں کو منع کرتے کہ گاڑی صاف نہیں کرنی۔ کیوں کہ سب یہ مانتے ہیں کہ یہ مافیا ہیں؛ سوال یہ ہے کہ اگر مستقبل کے یہ بچے مافیا ہیں تو انکو مافیا بنایا کس نے؟؟ کون اس مافیا کو یہ ٹریننگ دے رہا ہے؟؟ میرے خیال سے تو سب سے بڑا مافیا حاکمِ وقت ہے، وزرا ہیں اور ایوان میں بیٹھے ملک کے ٹھیکے دار ہیں.
یوں تو بچپن سے سنتے آئے ہیں پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب، لیکن پاکستان اور خصوصاً اسلام آباد میں بھی اب بھی کئی بچے پڑھنے لکھنے سے محروم محنت مزدوری کر رہے ہیں۔ چند مہینے پہلے ایک 22-2021 کے سروے پر ایک رپورٹ شائع کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں دو کروڑ 62 لاکھ بچے سکول جانے سے محروم ہیں۔ جن میں پنجاب میں ایک کروڑ 17 لاکھ 30 ہزار، سندھ میں76 لاکھ 30 ہزار، کے پی کے میں 36 لاکھ 30 ہزار اور بلوچستان میں 31 لاکھ 30 ہزار بچے تعلیم سے محروم ہیں، جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 8 لاکھ بچے سکول نہیں جارہے، جن میں 39 فیصد بچے مختلف وجوہات کی بنا پر سکول نہیں جارہے اور وہ مختلف وجوہات یہ ہیں جو آج دیکھیں؛ بیروزگاری، غربت مہنگائی!
اگر اس ڈیٹا کے مطابق اقدامات لیے جاتے تو یہ بچے مزدوری کرتے نظر نہ آتے۔ اسلام آباد میں آج بچوں کی مایوسی دیکھ کر دل بہت دُکھا، امید کے دیئے پہلے ہی بجھ گئے۔ اسکا ذمہ دار کون ہے؟؟ آٹھ سے دس اور بارہ یا چودہ سال کے بچے چار پیسوں کے لیے کوئی مکینک ہے تو کوئی گاڑیوں کی دھلائی کر رہا ہے۔ جسے کچھ کام نہیں ملا وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہے۔ کون ہے اس کا ذمہ دار؟؟؟
آج ان بچوں کی آنکھوں میں مستقبل کے سہانے خواب نہیں ہیں بلکہ بھوک اور تنگدستی کا خوف ہے۔ اس لیے ہاتھوں میں کتابوں کی جگہ پانا ، جیک اور راڈ ، یا پھر وائپر اور کپڑا ہے جو کہ زندگی کا الگ ہی سبق ان بچوں کو پڑھا رہے ہیں کہ پیٹ کی آگ بجھانی ہے تو محنت مزدوری کرنی ہوگی۔ کیونکہ حاکم وقت تو اے سی کی ٹھنڈک سے نکل کر غریب کی بے بسی کو محسوس نہیں کر سکتا۔
تپتی گرم دوپہر میں موسم کی سختیوں کو نظر انداز کرنے والے یہ بچے یقیناً کسی مہربان کا انتظار کر رہے ہیں جو انکی زندگی بدل دے۔ ہر دن غربت کے خلاف جنگ کرنے والے یہ بچے کس کی ذمہ داری ہیں۔
مزید مہنگائی کا بوجھ آنے والے وقت میں خطرناک حد تک چائلڈ لیبر کا اشارہ دے رہے ہیں لیکن حکومت کو اس سے پہلے ہی کچھ کرنا ہوگا اور سماجی اداروں کو بھی جاگنا ہوگا۔ سماجی ادارے اگر کچھ کرتے ہیں تو چائلڈ لیبر کم از کم کچھ کم تو ضرور ہوتی بہرحال پاکستان کی اس نسل کو بچانا اور شعور دینا حکومت اور اداروں کی ہی ذمہ داری ہے۔ دعاؤں میں اِن کم سن مزدور بچوں کو یاد رکھیں