ویب ڈیسک : انٹرنیٹ میں ویب 3.0 کے نفاذ کے بعد معلومات کو ذخیرہ کرنے کے لیے پیچیدہ آپریٹنگ سسٹمز یا بڑی ہارڈ ڈرائیوز کی ضرورت نہیں پڑے گی، کیونکہ ہر چیز کلاؤڈ میں ہوگی اور ہر چیز بہت تیز اور قابلِ تبدیلی ہوگی۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ویب 3.0 پر مشین انسان کے ساتھ زیادہ مؤثر طریقے سے تعاون کریں گی۔
ویب 3.0 مشینوں کو بڑے ڈیٹا کی خود سے تشریح کرنے کی صلاحیت دے گا۔ اس سے ہمیں دوسری چیزوں کے علاوہ کسی بھی پلیٹ فارم سے دوسرے صارفین کے ساتھ بہت زیادہ گہرائی سے بات چیت کرنے کی صلاحیت ملے گی۔
ایتھیریئم دنیا میں دوسرا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا بلاک چین پروٹوکول ہے۔ اور یہ ٹیکنالوجی ویب 3.0 کی بنیاد ہے۔ ویب تھری کی اصطلاح بھی 2014 میں ایتھیریئم کرپٹو کرنسی کے شریک بانی گیون ووڈ نے وضع کی تھی۔ اور انہوں نے ہی ویب 3.0 فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی
ویب 3.0 کی ساخت کا ایک اہم حصہ بلاک چین ٹیکنالوجی ہے، جو ’بلاکس‘ بنانے اور ڈیٹا چین بنانے کی اجازت دیتی ہے، اور جسے ہم بنیادی طور پر کرپٹو کرنسیوں سے جانتے ہیں۔لیکن اس کی ٹیکنالوجی کو عام لوگوں نے ابھی تک استعمال نہیں کیا ہے۔
ایمازون، گوگل اور مائیکروسافٹ فی الحال کلاؤڈ ڈیٹا سٹوریج کے لیے مارکیٹ کی قیادت کر رہے ہیں۔ایمازون کمپنی اپنی ذیلی کمپنی ایمازون ویب سروسز (اے ڈبلیو ایس) کے ساتھ مل کر اس مارکیٹ کا 41.5 فیصد کنٹرول کرتی ہے۔ اس کے بعد مائیکروسافٹ کے پاس 29.4 فیصد اور گوگل کے پاس تین فیصد ہے۔
سنرجی رپورٹ گروپ کی رپورٹ کے مطابق یہ تین کمپنیاں عالمی سطح پر 600 بڑے ڈیٹا سینٹرز میں سے نصف کی مالک ہیں۔
ویب 3.0 ‘صارفین کو دنیا بھر میں ہزاروں ڈیٹا سینٹرز تک رسائی حاصل کرنے کی اجازت دے گا اور وہ اپنی مرض کا انتخاب کر سکیں گے ۔ اس میں پیئر ٹو پیئر (P2P) ٹیکنالوجی ہے جو متعدد صارفین کے درمیان براہ راست پیئر ٹو پیئر وسائل کا تبادلہ کرنے کی اجازت دیتی ہے، جو موجودہ ویب 2.0 یا ایچ ٹی ٹی پی پروٹوکول کے ساتھ ممکن نہیں ہے۔
سیکیورٹی کا مسئلہ اس دور میں بہت اہم ہے زندگیاں اور ڈیٹا تیزی سے انٹرنیٹ پر منتقل ہو رہا ہے اور اب سب سے اہم یہ ہے کہ ویب 3.0 کو کبھی بھی ہیک نہیں کیا جاسکے گا۔