(ملک اشرف) نجی یونیورسٹیز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران وزیر صحت یاسمین راشد نے چیف جسٹس سے شکوہ کیا کہ آپ کے ریمارکس پر اپوزیشن مجھ سے استعفے کا مطالبہ کررہی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو استعفیٰ نہیں دینے دیں گے، آپ اپنا کام کریں،گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے نجی یونیورسٹیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی، صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت،صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد اور وزیر ہائیر ایجوکیشن کمیشن عدالت میں پیش ہوئے۔ وزیر صحت یاسمین راشد نے چیف جسٹس سے شکوہ کیا کہ آپ کے ریمارکس پر اپوزیشن مجھ سے استعفے کا مطالبہ کررہی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو استعفی نہیں دینے دیں گے، آپ اپنا کام کریں،گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں، آپ بہت قابل احترام ہیں آپ کا پورا کیرئیر بے داغ ہے۔ ہمارے پاس الفاظ نہیں جن سےآپ کی تعریف کی جائے۔ہمارے خلاف بھی مہم چلائی جاتی ہیں ایسے واٹس ایپ میسج بھی موجود ہیں، کیا ان حالات میں کام کرنا چھوڑ دیں۔
صوبائی وزراء نے عدالت کو بتایا کہ 28 یونیورسٹیوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے چارٹر اور روڈ میپ تیار کرلیا گیا ہے۔ روڈ میپ اور چارٹر کی صوبائی کابینہ نے منظوری بھی دے دی ہے۔
عدالتی معاون نے بتایا کہ یونیورسٹی آف لاہور 90 اقسام کی ڈگریاں جاری کر رہی ہے۔ عدالتی حکم پر نجی یونیورسٹیوں سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرواچکے ہیں۔
سپریم کورٹ نے عملدرآمد رپورٹ طلب کرتے ہوئے روڈ میپ اور چارٹر کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ 6 جنوری کو پی کے ایل آئی سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ڈاکٹر یاسمین راشد پر سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا تھا کہ پنجاب حکومت میں اہلیت نہیں ہے، نااہلی اور نکما پن اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے، یہ نااہلی ہی ہے کہ پنجاب حکومت سے معاملات نہیں چلائے جا رہے، آپ لوگوں کوعلاج کی سہولیات دینے میں ناکام ہیں، آپ نے شدید مایوس کیا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آپ کی کارکردگی یہ ہے کہ ابھی تک آپ نے پی کے ایل آئی ٹرسٹ ہی ختم نہیں کیا، ڈاکٹر یاسمین راشد بولیں اس پر بھی کام تقریباً مکمل ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر اعجازالحسن نے ڈاکٹر یاسمین راشد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ پھر زبانی جمع خرچ کر رہی ہیں۔