سٹی42: استحکام پاکستان پارٹی کے چئیرمین جہانگیرترین نے 8 فروری کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر شکست اور استحکام پاکستان پارٹی کی انتخابات مین بہت کمزور کارکردگی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے سیاست چھوڑ دی۔
جہانگیر ترین نے آج پیر کی شام اعلان کیا ہے کہ میں نے استحکام پاکستان پارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
اپنے استعفیٰ کے اعلان کے ساتھ جہانگیر ترین نے استحکام پاکستان پارٹی کے اراکین کےلیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھاکہ جن لوگوں نے انتخابی مہم میں حمایت کی ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اور کامیابی پراپنے مخالفین کو مبارکباد دیتا ہوں۔
آٹھ فروری کو جہانگیر ترین عام انتخابات میں این اے 149 اور این اے 155 لودھراں کی نشستوں سے بھاری مارجن سے ہار گئے تھے۔ ملتان مین انہیں مسلم لیگ نون کی حمات حاصل تھی جبکہ لودھراں میں انہیں مسلم لیگ نون کے ہی صدیق بلوچ نے شکست دی تھی جو اس حلقہ میں ان کے قدیمی حریف ہیں۔
آٹھ فروری کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ک اور غیر اعلان شدہ اتحاد کے باوجود استحکام پاکستان پارٹی عام انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ استحکام پارٹی کے قومی اسمبلی کے دو ارکان منتخب ہو سکے وہ دونوں لاہور میں مسلم لیگ نون کی عملی مدد سے کامیاب ہوئے۔ پنجاب اسمبلی کی ایک ہی سیٹ آئی پی پی کے حصے میں آئی ہے۔
مشرف کی چھتری تلے جہانگیر ترین کا عروج
جہانگیر ترین کے طویل سیاسی سفر میں بہت سے نشیب و فراز آئے، وہ جنرل پرویز مشرف کی آمریت میں سیاسی طاقت کے عروج پر رہے، جہانگیر ترین 1997 میں مسلم لیگ نون میں نواز شریف کے ساتھ شامل رہے۔ 2002میں وہ پارٹی بل کر پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کے مشیر کی حیثیت سے سامنے آئے اور تین سال یہ کام کرنے کے بعد 2004 میں رکن قومی سمبلی بن کر وفاقی وزیر صنعت و پیداوار بن گئے۔ لاہور کے ایف سی کالج اور بعد ازاں امریکہ کی یونیورسٹی آف کیروالینا کے اعلیٰ تعلیم یافتہ جہانگیر ترین پرویز مشرف کی آمریت کا سورج غروب ہونے کے بعد چند سال وہ مسلم لیگ فنکشنل میں رہے اور پھر تحریک انصاف میں طلوع ہوئے اور عمران خان کی قربت اختیار کر کے مسلسل عروج پاتے ہوئے پارٹی کے سیکرٹری جنرل بن گئے۔ اس عہدہ پر ان کے انتخاب کو پارٹی کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس وجیہہ نے تحقیقات کے بعد دھاندلی کا نتیجہ قرار دیا اور جہانگیر ترین، پرویز خٹک اور دوسرے دو افراد کو پارٹی سے نکالنے کا مشورہ دے کر خود سیاست سے کنارہ کش ہو گئے کیونکہ عمران خان نے ان کے فیصلہ کو اہمیت نہیں دی تھی۔
"چار حلقے کھولو"
مئی 2013 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کی بری پرفارمنس کے بعد عمران خان نے جن چار حلقوں مین دھاندلی ہونے کا الزام لگا کر چار حلقوں کے تمام ووٹوں پر انگوٹھے کے نشانات کا فورنزک کرنے کا مطالبہ کر کے احتجاجی تحریک چلائی ان مین سے ایک حلقہ جہانگیر ترین کا لودھراں کا حلقہ تھا۔ مختصر مقدمہ بازی کے بعد عدالت نے 2015 میں اس حلقہ (تین این اے 154، اب این انے 155) میں صدیق بلوچ کا 2013 کا انتخاب کالعدم قرار دے کر ری الیکشن کاحکم دے دیا تھا۔ ری الیکشن میں جہانگیر ترین کو کامیاب قرار دے دیا گیا تھا اور اس ری الیکشن کے نتیجہ سے عمران خان کی مئی 2013 کے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کو سندِ قبولیت مل گئی تھی۔ اتفاق کی بات ہے کہ اب اسی انتخابی حلقہ این اے 155 میں اسی 2015 والے صدیق بلوچ نے غیر متنازعہ انتخابی عمل کے نتیجہ مین انہیں بھاری اکثریت سے شکست دی اور جہانگیر ترین سیاست چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔
بادشاہ گر جہانگیر ترین
بعد ازاں جہانگیر ترین نے 2018 کے الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت بنانے کے لئے درکار الیکٹیبلز کو پارٹی میں لانے حتیٰ کہ منتخب ہو چکے مخالف سیاست دانوں کی وفاداریاں بدلوا کر انہیں عمران خان کی حمایت پر آمادہ کرنے میں بظاہر کرشماتی کردار ادا کیا تھا۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں جہانگیر ترین نے اہم پالیسی ساز کی حیثیت سے کام کیا، پھر پاناما لیکس کے بعد جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک متنازعہ فیصلہ میں تب وزیر اعظم میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے لئے نا اہل قرار دیا تو مسلم لیگ نون کی جانب سے دائر کی گئی ایک درخواست کے نتیجہ میں عمران خان تو نا اہلی سے بچ گئے تاہم عدالت نے جہانگیر ترین کو تا حیات نا اہل قرار دے دیا۔ پانچ طویل سال سیاست میں کسی عہدہ کے بغیر رہنے کے دوران جہانگیر ترین نے اختلافات کے باعث عمران خان کا ساتھ چھوڑا، الگ گروپ بنایا اور بعد مین اپنے ساتھوں کو ساتھ لے کر نئی سیاسی پارٹی استحکام پاکستان پارٹی بنا لی جس نے پہلا الیکشن 8 فروری کو لڑا۔
اس دوران سپریم کورٹ نے سیاستدانوں کی تا حیات نا اہلی کے ایک مقدمہ کی سماعت میں تمام نا اہل قرار پائے سیاست دانوں کے معاملات کو بھی شامل کر لیا اور الیکشن 2024 کا شیڈول آنے کے بعد سنائے گئے فیصلہ میں سپریم کورٹ نے تاحیات نا اہل قرار دیئے گئے سیاستدانوں کو نا اہلی کے پانچ سال پورے ہونے کے بعد یساست کرنے کی اجازت دے دی۔ اس فیصلہ کے نتیجہ میں مسلم لیگ نون کے لیڈر نواز شریف اور استحکام پاکستان پارٹی کے لیڈر جہانگیر ترین الیکشن کے میدان میں اترے تھے۔ نواز شریف لاہور کے ایک حلقہ سے الیکشن جیت گئے اور مانسہرہ کے ایک حلقہ سے الیکشن ہارنے کے بعد اس فیصلہ کے خلاف الیکشن پیٹیشن دائر کر چکے ہیں جبکہ جہانگیر ترین کو دو انتخابی حلقوں سے شکست کے بعد آج سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنا پڑی۔
جہانگیر ترین ایک بڑا کاروبار چلاتے ہیں۔ ان کے کاروباری گروپ کا نام جے ٹی گروپ ہے جس کے وہ چئیرمین ہیں اور جے ڈی ڈبلیو گروپ کے سیکرٹری جنرل اور میجاریٹی شئیرز کے مالک ہیں۔