سٹی42: جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے عام انتخابات میں جماعت اسلامی کو ایک بھی نشست نہ ملنے کی بدترین ناکامی پر جماعت اسلامی کی امارت سے استعفیٰ دے دیا۔
اپنے استعفیٰ کے بعد بیان میں سراج الحق نے کہا کہ کوشش اور محنت کے باوجود انتخابات میں مطلوبہ کامیابی نہیں دلوا سکا، انتخابات میں ناکامی کو قبول کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کے عہدہ سے استعفٰی دیتا ہوں۔
جماعت اسلامی ے ترجمان نے بتایا ہے کہ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم نے جماعت کی شوریٰ کا اجلاس 17 فروری کو منصورہ میں طلب کر لیا ہے۔
ترجمان کے مطابق شوریٰ کے اجلاس میں سراج الحق کے استعفےکے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیا جائےگا۔
اتوار کے روز جماعت اسلامی کے الیکشن کمیشن کے صدر نے نئے امیر کے انتخاب اور ارکان کی رہنمائی کے لیے 3 نام تجویز کئے تھے ان میں سراج الحق کے ساتھ لیاقت بلوچ اور حافظ نعیم الرحمان کے نام شامل تھے۔ جماعت اسلامی کے دستور کے مطابق ووٹ صرف رکن دے سکتے ہیں اور ہر رکن کسی بھی رکن کو جماعت کے امیر کے عہدہ کے لئے ووٹ دے سکتا ہے۔ کوئی رکن خود کو امیر کے عہدہ کے لئے پیش نہیں کر سکتا، کوئی رکن اپنے لئے کیمپین نہیں کر سکتا، جماعت کے ارکان البتہ اپنے طور میں کسی رکن کو امیر بننے کے لائق سمجھتے ہوں تو وہ اس کو باقی ارکان کے سامنے تجویز کر سکتے ہیں تاہم جماعت مین انتخابی مہم کی مجالس کی بھی روایت نہیں ہے۔ جماعت کے الیکشن کمیشن کی جانب سے جو تین نام تجویز کئے گئے ارکان ان کو نظر انداز کر کے کسی بھی من پسند رکن کو امیر کے عہدہ کے لئے ووٹ دے سکتے ہیں۔ ان 3 کے علاوہ بھی کسی رکن کے امیر کے منصب پر انتخاب کے لیے اپنی رائے دے سکتے ہیں۔
ترجمان نے بتایا کہ امیرجماعت کے انتخاب کے تمام مراحل 31 مارچ 2024 تک مکمل کیے جائیں گے، اپریل میں صدر الیکشن کمیشن راشد نسیم نتائج کا اعلان کریں گے۔
جماعت اسلامی میں ہر سطح پر باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں، امیر جماعت اسلامی کا انتخاب ہر 5 سال بعد دستور کے مطابق ہوتا ہے۔
جماعت اسلامی میں سراج الحق کا عہد
سراج الحق جماعت اسلامی کے اولعزم امیر پروفیسر منور حسن کے اچانک پیچھے ہٹ جانے کے بعد 30 مارچ 2013 کو امیر منتخب ہوئے تھے، وہ دس سال سے جماعت کے امیر ہیں۔ سراج الحق کی سیاسی زندگی میں امیر بننے سے پہلے اہم ترین دور خیبر پختونخوا (شمال مغربی سرحی صوبہ)میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے کام کرنے کا زمانہ تھا۔ اس دوران انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور بعد ازاں قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں کے مسئلے پر وزارت سے استعفیٰ دے کر شہرت سمیٹی؛ وہ 2002 کے انتخابات کے وقت جماعت کے صوبہ سرحد کے امیر تھے اور جماعت کے تب مرکزی امیر قاضی حسین احمد کا تعلق بھی پختون علاقہ سے تھا۔ ان دونوں کی کیمپین کی بدولت جماعت کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عوامی سطح پر قبول کیا گیا اور جماعت متحدہ مجسل عمل میں صوبائل حکومت بنانے کے قابل ہوئی۔
سراج الحق متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے 2002 کے الیکشن میں خیبرپختونخوا اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور اکرم خان درانی کی قیادت میں صوبائی کابینہ میں انہیں وزیر خزانہ بنایا گیا تھا۔ وزیر خزانہ کی حیسیت سے انہوں نے مولویوں سے وابستہ عمومی تصورات کے برعکس غیر معمولی بہتر نظم اور بدعنوانی سے پاک وزارت چلائی جس کے سبب انہیں اچھا منتظم اور ایماندار نگراں مان لیا گیا۔
سراج الحق نے باجوڑ ایجنسی میں ایک مدرسے پر ہونے والے مہلک ڈرون حملے کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا اس حملے میں 86 بچے ہلاک ہوئے تھے۔ اگرچہ اس وقت کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے بعد میں دعویٰ کیا کہ یہ استعفیٰ احتجاج میں نہیں بلکہ جماعت کے نظم کے اس فیصلہ کا نتیجہ تھا کہ دو دفاتر میں سے ایک کو خالی کیا جائے یعنی وزارت اور امیر جماعت اسلامی خیبرپختونخوا، پھر ان کی پارٹی نے 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔سراج الحق صوبہ خیبر پختونخوا میں تین دفعہ سینئیر وزیر رہ چکے ہیں۔خیبرپختونخوا صوبائی اسمبلی میں متعدد مرتبہ منتخب ہوئے۔ 2013 میں، انہوں نے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے۔ بعد ازاں انہیں سینیٹر بھی منتخب کیا گیا۔ سراج الحق واحد سینٹر اور اسمبلی کے رکن تھے جن کا سود کی نظام کے ساتھ اختلاف کی وجہ سے کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں تھا۔
سراج الحق خان کی پیدائش 5ستمبر 1962ء پختونخوا کے بالائی ضلع لوئر دیر میں ثمرباغ کے گاؤں کاکس میں ہوئی۔ آپ اس سے قبل اور آپ آپ ایک انتہائی سادہ مزاج کے مالک ہیں۔
سراج الحق نے اپنی ابتدائی تعلیم خطے کے مقامی ہائی اسکول سے لی اور پشاور یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس اور 1990 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے ایجوکیشن مکمل کیا ۔ یونیورسٹی کی مدت کے دوران، انھوں نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا نعیم صدیقی کی کتابوں کی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے اسلامی جمعیت طلبہ میں کام کیا اور 1988 سے 1991 تک اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔وہ PK-95 انتخابی حلقہ سے MPA کے طور پر دو بار منتخب کر دیے گئے ہیں۔