کل کس کی سالگرہ ہے، یاد ہے ناں؟

12 Feb, 2024 | 03:46 AM

This browser does not support the video element.

This browser does not support the video element.

سٹی42: اردو زبان کے صاحبِ طرز شاعر فیض احمد فیض زندہ ہوتے تو کل 13 فروری کو وہ اپنی 113 ویں سالگرہ کا کیک کاٹ رہے ہوتے اور  ہم انہیں ہیپی برتھ ڈے ٹو یو فیض صاحب کہہ رہے ہوتے۔ کل فیض احمد فیض کی سالگرہ ہے۔

فیض احمد فیض 13 فروری 1911 کو سیالکوٹ میں  پیدا ہوئے تھے۔ ان کی پیدائش کے وقت ان کی فیملی میں کسی کو اندازہ نہیں ہو گا کہ وہ بڑے ہو کر شاعری کیا کریں گے اور ایک روز دنیا میں اپنے الگ اسلوب، طرز اور اختراعات کے حوالے سے پہچانے جائیں گے۔ فیض کی زندگی میں بہت عرصہ تک خود انہیں نہیں معلوم تھا کہ وہ کب پیدا ہوئے۔ ان کی بیٹی سلیمہ ہاشمی نے ایک بار اپنے والد کی سالگرہ کے موقع پر شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں  بتایا کہ ان کی دادی ( فیض صاحب کی والدہ)  کو صرف یہ یاد تھا کہ جب وہ پیدا ہوئے تو سردی تھی اور بارش ہو رہی تھی۔ 'ہم کئی سال سمجھتے رہے کہ ابا کی سالگرہ جنوری میں ہے۔ پھر ہماری فیملی میں ایک  سراغرساں قسم کے عزیز تھے، وہ سیالکوٹ گیا اور سارا ریکارڈ کھنگالا۔ پھر وہ میونسپل کارپوریشن کے آفس گئے تو پتہ چلا کہ ابا  (فیض) کی تاریخ پیدائش 13 فروری 1911 ہے۔' اور پھر اس کے بعد 13 فروری ہی سرکاری اور مستند تاریخ ہو گئی۔

فیض احمد فیض کی شادی لندن کے ایک کتب فروش کی صاحبزادی ایلس جارج سے ہوئی تھی جو فیض احمد فیض کی نظریاتی ساتھی تھیں اور ان کی بہن لاہور کے ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر  (سلمان تاثیر کے والد) کی بیوی تھیں۔  ایلس نے فیض کے ساتھ شادی کرنے کے لئے اسلام قبول کیا تھا۔ 

فیض اور ایلس کی شادی 1941 میں سری نگر میں مہاراجہ ہری سنگھ کے "پری محل" میں ہوئی تھی۔ اس وقت ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر  سری نگر کے ایس پی کالج میں پرنسپل تھے اور ایلس ان کے ہاں اپنی بڑی بہن کے  ساتھ مقیم تھیں۔ ایلس فیض کے ساتھ فیض کا خوبصورت رشتہ فیض کی وفات تک بے مثال رہا، ایلس ان کی وفات کے بعد طویل عرصہ پاکستان میں ہی اپنی بچیوں سلیمہ اور منیزہ کے ساتھ مقیم رہیں اور یہیں 2003 میں وفات پائی۔

فیض احمد فیض نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں پائی تھی۔ وہیں مرے کالج سے 1926 میں انٹر کیا اور پھر لاہور کے گورنمنٹ کالج اور اورئینٹل کالج سے  عربی لٹریچر اور انگلش لٹریچر مین ماسٹرز کی ڈگریاں مکمل کیں۔  فیض پیشہ کے اعتبار سے ابتدا مین تدریس سے وابستہ رہے، سیاست سے انہیں گہرا شغف تھا اور وہ برصغیر کی تحریک آزادی میں کمیونسٹ پارٹی کے کارکن کی حیثیت سے سرگرم رہے، بعد ازاں جب برطانیہ کی حکومت نے دوسری جنگ عظیم میں جیتنے کی صورت میں ہندوستان کو آزادی دینے کا اعلان کر دیا تو فیض بھی بہت سے ہندوستانیوں کی طرح برٹش فوج میں شامل ہو گئے تھے، انہیں کرنل کا عہدہ دیا گیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد فیض صحافت کے پیشہ سے پروفیشنل صحافی کی حیثیت سے وابستہ ہو گئے۔ وہ لاہور سے نکلنے والے پاکستان ٹائمز اور امروز اخبار کے ایڈیٹر رہے۔

فیض صاحب پسماندہ طبقات کی بہتری کی کاز سے گہری وابستگی کے سبب شبہ کی بنیاد پر  "راولپنڈی سازش کیس" میں سزا پا کر کئی سال تک راولپنڈی کی جیل میں بھی قید رہے۔ ان کی شاعری کا ایک بہترین حصہ اسی جیل کی زندگی کے دوران منصہِ شہود پر آیا۔ 

فیض انگریزی لٹریچر کے ساتھ عربی لٹریچر میں بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کی شاعری میں ان کی عربی دانی کے سبب ایک خاص صوتی آہنگ موجود رہا جسے کم ناقدوں نے عربی زبان کے حوالے سے شناخت کیا تاہم ان کی فلسطینیوں کے لئے لکھی نظمیں اس خاص آہنگ کی شناخت کا اچھا زریعہ ہیں۔ 

فیض کو ان کی شاعری کے سبب دنیا بھر میں غیر معمولی توجہ ملی۔ انہیں  1962 میں سابق سوویت یونین کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ لینن امن ایوارڈ بھی دیا گیا۔  انہیں ادب کے نوبیل پرائز کے لئے بھی نامزد کیا گیا تاہم  پاکستان میں ان کی ادبی بڑائی کو ان کی 1984 میں وفات کے چھ سال بعد 1990 میں تسلیم کیا گیا جب پاکستان میں بینظیر بھٹو  شہید کی پہلی حکومت تھی، انہیں بعد از وفات سیارہِ امتیاز دیا گیا۔ فیض احمد فیض کا  سرمایہ ِ تخلیق  شاعری کی نو  کتابوں ، 2 نثری کتابوں اور ایک مجموعہِ خطوط پر محشتمل ہے۔

  پاکستان میں ایک وقت ایسا بھی رہا جب فیض صاحب کا نام سرکاری میڈیا پر حرفِ ممنوع تھا اور غیر سرکاری میڈیا میں بھی انہیں ڈرتے ڈرتے شائع کیا جاتا تھا۔ اب البتہ پاکستان کے اہل فکر و فن بات کچھ بھی کر رہے ہیں، کلامِ فیض سے اکتساب کئے بغیر بات بنتی نہیں۔

فیض کی شاعری میں غزل اور نظم دونوں بے مثل ادب پارے تخلیق ہوئے۔ ان کی  کتابوں کے بہت سے ایڈیشن شائع ہوئے ار ہر ایڈیشن چھپنے کے کچھ ہی مہینے بعد بازار میں نایاب ہو جاتا رہا۔ اب ان کی تقریباً تمام تخلیقات الیکٹرانک فارم میں  ورلڈ وائیڈ ویب میں موجود ہیں۔ 

فیض احمد فیض ان غیر معمولی شاعروں میں شامل ہیں جنہیں ان کی زندگی میں چاہنے والوں کی بے پناہ محبت ملی۔ پاکستان اور بھارت کے گائیک ان کے کلام کو گانا اپنے لئے سعادت اور اعزاز سمجھتے  تھے۔ ان کی جو بھی نظم کسی گلوکار یا گلوکارہ نے گائی وہ  کلام تو امر تھا ہی، گانے والے بھی امر ہو گئے۔

فیض احمد فیض کو ایک اور طرہِ امتیاز یہ بھی ہے کہ پاکستان اور بھارت میں جب بھی عوام حاکموں پر غصہ میں ہوتے ہیں تو انہیں فیض کی یاد زیادہ ستانے لگتی ہے اور وہ ان کی انقلابی نظمیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان میں سے حسبِ حال اشعار اپنے غصے اور جذبات، کبھی آرزوؤں اور تمناؤں کے اظہار کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ 

مزیدخبریں