سٹی42: اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے مطالبہ کر دیا کہ پختونخوا کے تمام حلقوں کو کھولا جائے، بڑی تعداد میں بوگس ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ اگر ہمارے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا گیا تو بہت جلد پورے صوبے میں پرامن احتجاجی تحریک کا اعلان کریں گے۔ کٹھ پتلی وزیراعلیٰ کو لانے کیلئے تمام پارٹیوں کے سرکردہ رہنماؤں کو پارلیمان سے باہر رکھا گیا۔ جنرل صاحب معلوم کروائیں کہ پختونخواہ میں بیوروکریسی نے ایک رات میں کتنے ارب روپیہ کمایا۔
ایمل ولی خان نے باچا خان مرکز پشاور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے الزام لگایا کہ 8 فروری 2024ء کو ہونے والے تاریخ کے بدترین انتخابات تھے۔ صرف اے این پی نہیں، پی ٹی آئی کے ان اہم رہنماؤں کوبھی ہروایا گیا جو وزارت اعلیٰ کے امیدوار سمجھے جاتے تھے۔اب بلوچستان جیسی کٹھ پتلی حکومت اور اسمبلی پختونخوا میں قائم کی جائے گی۔ گونگے اور بہروں کو اسمبلی پہنچادیا گیا تاکہ پختونخوا کے حقوق اور وسائل کیلئے کوئی بات نہ کرسکیں۔مضبوط آوازوں کو پارلیمان سے باہر رکھا گیا تاکہ ان وسائل پر مقتدرہ کا قبضہ قائم رہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینئیر لیڈر غلام احمد بلور اور افتخار حسین نیوز کانفرنس میں ایمل ولی کے دائیں بائیں بیٹھے تھے۔
ایمل ولی نے الزام لگایا کہ 8فروری کو الیکشن کی منیجمنٹ کا آغاز انتخابات کے دن نیٹ ورک ڈاؤن کرنے سے ہوا۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کے آزاد امیدواران کو الگ طریقے سے ڈیل کیا گیا تاکہ وہاں ن لیگ کی حکومت قائم کی جاسکے۔ پختونخوا میں کمپرومائزڈ آزاد امیدواران کو جتوایا گیا تاکہ اپنی مرضی کی کٹھ پتلی اسمبلی بنائی جاسکے۔ پی ٹی آئی کے کمپرومائزڈ آزاد امیدواران کے ساتھ پہلے سے ڈیل کرکے ان کو ریلیف در ریلیف دیا گیا۔
ایمل ولی خان نے کہا کہ پشاور اور پورے پختونخوا میں پولیس اور فوج نے 9 مئی کے بعد صرف ورکرز کو نشانہ بنایا۔ جن پی ٹی آئی رہنماؤں نے ڈیل کر لی وہ ایم پی اے اور ایم این اے بن گئے اور پی ٹی آئی کے جن رہنماؤں نے ڈیل نہیں کی انہیں پارلیمنٹ سے باہر کیا گیا۔
ایمل ولی خان نے الزام لگایا کہ پی کے 82 پشاور سے پی ٹی آئی امیدوار کو ہروا کر مدمقابل کو کروڑوں روپے کے عوض 7ویں نمبر سے پہلے نمبر پر لایا گیا ۔حیات آباد سے چند کروڑ روپوں کے عوض ایک افغان شہری کو ایم پی اے بنادیا گیا۔ اگر "عمران کا ووٹ ہے" والی کہانی میں حْقیقت ہے تو چارسدہ سے پی ٹی آئی کے امیدوار نے صرف 4 ہزار ووٹ کیوں لئے ۔
نے الزام لگایا کہ انکے مقابلے میں ایک آزاد امیدوار نے کروڑوں روپے کے عوض 39 ہزار ووٹ لئے ہیں۔ پشاور سے ایک سابق ایم این اے صاحب کے 38 ہزار ووٹوں کو فارم 47 میں ایک لگا کر ایک لاکھ 38 ہزار ووٹ بنائے گئے۔ ہمارے اپنے امیدواران سے آر اوز کے ذریعے کروڑوں کا مطالبہ کیا گیا، ہمارے ساتھ ثبوت موجود ہیں۔ پاکستان میں اس وقت الیکشن کمیشن اور عدلیہ سمیت پورا نظام مفلوج ہے۔
اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے کہا کہ پاکستان میں ایک ادارے کی بادشاہت قائم ہے اور وہ ہے اسٹیبلشمنٹ۔ روز اول سے آج تک اس ملک کے ساتھ جو ہوا اس کی ذمہ داری صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ پر عائد ہوتی ہے۔ 2008ء سے لے کر اب تک قیام امن کیلئے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ریاست کے ساتھ تعاون کیا، دہشتگردی کے خلاف ہم نے جانوں کی قربانیاں دیں لیکن ریاست کیلئے ہم ہمیشہ غدار ہی ٹھہرے تو ہم غدار ہی سہی۔ اب مزید کسی قسم کا تعاون نہیں ہوگا۔ Enough is Enough۔ اے این پی کیلئے پاکستان میں دو راستے ہیں ایک بیلٹ اور دوسرا بُلٹ۔ بیلٹ میں ہمارے ساتھ یہ کیا گیا جو عوام کے سامنے ہیں اور بُلٹ کے سامنے بھی ہمیں رکھا جاتا ہے۔
ایمل ولی خان نے کہا کہ آج سے اپنا آئینی اور جمہوری کردار ادا کرتا رہوں گا، خواہ وہ کسی کو اچھا لگے یابرا۔ہوسکتا ہے ہمیں اس جدوجہد میں اینٹی سٹیٹ بھی قرار دیا جائے۔واضح کرتے ہیں کہ ہم بالکل بھی ریاست مخالف نہیں لیکن ہمیں مجبور نہ کیا جائے۔
ایمل ولی خان نے کہا کہ کوئی اس خام خیالی میں نہ رہے کہ گونگے بہروں کو اسمبلیوں میں پہنچا کر اٹھارہویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرلیا جائیگا، مقتدر حلقے پرویز مشرف کے کالاباغ ڈیم بنانے کے فیصلہ کو یاد رکھیں۔ اس وقت بھی ہم پارلیمنٹ میں نہیں تھے لیکن کسی میں کالاباغ ڈیم بنانے کی ہمت نہیں تھی۔ اسی طرح اٹھارہویں آئینی ترمیم کو بھی کوئی رول بیک نہیں کرسکتا۔ پختونخوا کے تمام قوم پرست رہنماؤں کو پارلیمنٹ سے باہر رکھنے کا نتیجہ وفاقی نظام کے خلاف ایک عوامی تحریک کے طور پر سامنے آئے گا۔ پارلیمانی جمہوری سیاست کا راستہ بند کرنے کی ریاستی کوششوں کا ردعمل تاریخ ساز ثابت ہوگا۔
ان تمام حقائق کی بنیاد پر کوئی بھی با شعور شخص ان انتخابات کو کس طرح ماننے کو تیار ہوسکتا ہے۔ہم ان نتائج کو مسترد کرتے ہیں اور کسی بھی صورت ماننے کو تیار نہیں۔ اے این پی مطالبہ کرتی ہے کہ پختونخوا کے تمام حلقوں کو کھولا جائے، بڑی تعداد میں بوگس ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ اگر ہمارے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا گیا تو بہت جلد پورے صوبے میں پرامن احتجاجی تحریک کا اعلان کریں گے۔ صوبہ بھر میں پارٹی ذمہ داران تنظیم سازی کا عمل دوبارہ شروع کریں۔ جلدازجلد تنظیمیں مکمل کی جائیں تاکہ اس نئی جنگ کیلئے پوری جماعت تیار رہے۔