ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیس، آرمڈ فورسز میں نہ ہونیوالا فرد فورسز کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے؟ سپریم کورٹ

سویلینز کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیس، آرمڈ فورسز میں نہ ہونیوالا فرد فورسز کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے؟ سپریم کورٹ
کیپشن: File photo
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 ویب ڈیسک: سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے سویلینز کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیس میں استفسار کیا ہےکہ آرمڈ فورسز میں نہ ہونے والا فرد آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے؟

 تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے جسٹس امین الدین کی سربراہی میں ملٹری کورٹس کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی جس میں وفاقی حکومت کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیئے کہ ملٹری کورٹس کیس میں عدالتی فیصلہ دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک حصے میں آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے جب کہ دوسرے حصے میں ملزمان کی ملٹری کورٹ میں کسٹڈی ہے۔

 اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ملٹری کورٹس کا پورا کیس آرٹیکل 8 کے گرد گھومتا ہے، آرمڈ فورسز میں نہ ہونے والا فرد آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے؟ اس موقع پر خواجہ حارث نے کہا کہ اگر قانون اجازت دیتا ہے تو ڈسپلن کا اطلاق ہوگا۔

 جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک شخص آرمی میں ہے اس پر ملٹری ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، کوئی محکمہ زراعت میں ہے اس پر محکمہ زراعت کے ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، کوئی شخص کسی محکمہ میں نہیں تو آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کا اطلاق کیسے ہوگا؟ کیا غیر متعلقہ شخص کو ڈسپلن کے نیچے لانا آرٹیکل 8 کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟

 خواجہ حارث کہا کہ  مخصوص حالات میں سویلین پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، عدالت کے پاس آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کرنے کا اختیار نہیں، اس پر جسٹس جمال نے کہا کہ اس طرح تو اگر کوئی اکسانے کا سوچے تو آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا، کیا آرمی ایکٹ نے آئین کے آرٹیکل8کا سیکشن 1 غیرمؤثرنہیں کردیا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ  ملٹری ٹرائل میں بھی فیئر ٹرائل کا آرٹیکل 10 اے موجود ہوتا ہے۔ 

 جسٹس مندوخیل نے مزید کہا کہ پاکستان میں سب سے بڑا عہدہ صدر مملکت کا ہے، اگر صدرہاؤس پرحملہ ہو تو ملزم کا ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں ہوگا مگر  آرمی املاک پر حملہ ہو تو ٹرائل ملٹری کورٹس میں؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ یہ فیصلہ قانون سازوں نے قانون سازی سے کیا ہے۔

 جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ ملٹری کورٹس کے زیر حراست افراد کی ایف آئی آر کی نقول نہیں دی گئیں، کیا ملٹری کورٹ ٹرائل میں وکیل کی اجازت ہوتی ہے؟ کیا ملٹری کورٹ میں ملزم کو تمام مواد فراہم کیا جاتا ہے؟ اس پر  خواجہ حارث نے جواب دیا جی ملٹری کورٹ میں ملزم کو وکیل اور تمام متعلقہ مواد فراہم کیا جاتا ہے۔ 

 جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا اگر ایک فوجی اپنے افسر کا قتل کردے تو کیس کہاں چلے گا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا قتل کا کیس عام عدالت میں چلے گا۔

 بعد ازاں عدالت کے آئینی بینچ کی جانب سے کیس کی مزید کل تک ملتوی کردی گئی ہے۔