سٹی42: اسرائیل کے عسکری ذرائع گزشتہ کئی روز سے کہہ رہے ہیں کہ شمالی غزہ میں حماس کی باقی ماندہ بٹالینز تباہی کے قریب ہیں، حماس کے بہت سے جنگجوؤں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور وہ اب اسرائیلی ڈیفنس فورسز (IDF) کو انٹیلی جنس فراہم کر رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اب غزہ میں اسرائیلی فوج بڑے حماس لیڈروں کے خلاف کارروائی پر توجہ مرکوز کر رہی ہے جن میں سرِ فہرست یحییٰ سنوار ہے۔
یروشلم میں اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ بھاری فضائی حملوں اور زمینی لڑائی کے ذریعے غزہ بھر میں حماس کے مضبوط ٹھکانوں پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے، اس کی افواج نے شہریوں کی ہلاکتوں پر بین الاقوامی غم و غصے سے پہلے عسکریت پسند گروپ کو فیصلہ کن دھچکا پہنچانے کے لیے کارروائی تیز تر کر دی ہے۔
گزشتہ تین روز کے دوران اسرائیل کی دفاعی افواج نے غزہ بھر میں 250 سے زیادہ مقامات کو نشانہ بنایا اور وہ سب سے بڑے جنوبی شہر خان یونس اور شیجائیہ اور جبالیہ کے شمالی محلوں میں "شدید لڑائی" لڑ رہے ہیں۔
آئی ڈی ایف حکام کا کہنا ہے کہ اب واقعتاً حماس حملے کی زد میں آنے لگی ہے۔ گرفتار کیے گئے غزہ کے باشندوں کی حالیہ لیک ہونے والی ویڈیوز کے زریعہ اسرائیل میں اس بات کا ثبوت دیا گیا کہ حماس کے جنگجو ہتھیار ڈالنا شروع کر چکے ہیں۔ تاہم غزہ والوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے جن لوگوں کو حماس کا کارکن ہونے کے شبہ میں پکڑا ان مین ایسے بھی ہیں جن کا حماس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
آئی ڈی ایف کے چیف آف اسٹاف، لیفٹیننٹ جنرل ہرزی ہالیوی نے فوجیوں کے لیے ہنوکا کینڈل لائٹنگ کے دوران کہا کہ یہ واقعات "نظام کے ٹوٹنے کی علامت ہیں، اس بات کی علامت ہے کہ ہمیں مزید سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔"
حماس کے خلاف حالیہ کارروائیوں کے بعد اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے حماس کےعسکریت پسندوں سے براہ راست اپیل کی کہ وہ اپنے رہنماؤں کو چھوڑ دیں۔ نیتن یاہو نے کہا کہ حماس ختم ہو رہی ہے۔ سنوار کے لیے مت مرو۔ اب ہتھیار ڈال دو،"
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابقوزیر دفاع یوو گیلنٹ نے پیر کے روز بتایا کہ ہم نے جبالیہ اور شیجاعیہ میں حماس کے آخری مضبوط گڑھ کو گھیرے میں لے لئے ہیں۔حماس کی وہ بٹالین جو ناقابل تسخیر سمجھی جاتی تھیں، جو برسوں سے ہم سے لڑنے کے لیے تیار ہو رہی تھیں، وہ اب تباہ ہونے کے دہانے پر ہیں۔
گیلنٹ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ حالیہ دنوں میں حماس کے سیکڑوں کارکنوں نے اسرائیلی فوجیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں، جو ان کے بقول اب حماس کو "نظر آ رہا ہے کہ کیا ہو رہا ہے"۔ گیلنٹ کا کہنا ہے کہ "جو بھی ہتھیار ڈال دیتا ہے - اس کی جان بچ جاتی ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ جن لوگوں کو IDF نے گرفتار کیا ہے ان میں وہ دہشت گرد بھی شامل ہیں جنہوں نے 7 اکتوبر کو اسرائیلی کمیونٹیز پر حملے میں حصہ لیا تھا۔ گیلنٹ نے یہ بھی کہا کہ ہتھیار ڈالنے والے حماس کےکارکن"دلچسپ" انٹیلی جنس فراہم کر رہے ہیں۔
حماس کے خلاف اسرائیل کی فوجی کارروائی اب غزہ میں انتہائی مطلوب شخص کو پکڑنے یا قتل کرنے پر مرکوز ہے
حماس کے ٹھکانوں کو دو ماہ سے زیادہ عرصہ نقصان پہنچانے کے بعد، اسرائیلی حکام کا خیال ہے کہ سنوار اور اس کے قریبی ساتھیوں کو ختم کرنے سے حماس کے فوجی خاتمے میں تیزی آئے گی اور 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یحییٰ سنوار اسرائیل کے لئے اس لئے اہم ہے کہ اسرائیلی حکام کو یقین ہے کہ 61 سالہ سنوار نے 7 اکتوبر کو ہونے والے مہلک حملے کی منصوبہ بندی قریبی ساتھیوں کے ایک چھوٹے سے گروپ کے ساتھ کی تھی، جس میں محمد دیف، جو حماس کے عسکری ونگ کے کمانڈر ہیں، اور ڈیف کے نائب مروان عیسیٰ شامل تھے۔
گزشتہ ہفتے کے دوران، اسرائیلی دفاعی افواج نے شمالی غزہ کے کئی علاقوں پر حملے جاری رکھتے ہوئے، جنوبی غزہ کے شہر خان یونس تک اپنی زمینی کارروائی کو وسعت دی۔ اسرائیلی انٹیلی جنس کا خیال ہے کہ سنوار جنگ کے شروع میں غزہ شہر سے فرار ہو گیا تھا اور وہ جنوبی شہر خان یونس کے نیچے حماس کی سرنگوں میں چھپ گیا تھا۔
گزشتہ بدھ کو اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ آئی ڈی ایف نے خان یونس میں سنوار کے گھر کو گھیرے میں لے لیا لیکن حماس کے یہ رہنما وہاں نہیں تھے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ وہ بھاگ سکتا ہے اور چھپ سکتا ہے لیکن ہم اسے پکڑ لیں گے۔
ایک سینئر اسرائیلی دفاعی اہلکار نے کہا کہ خان یونس میں آپریشن کا مقصد سنوار کو مردہ یا زندہ حالت میں حاصل کرنا ہے۔ سنوار حماس کی کارروائیوں کا کنٹرول رکھتا ہے - حالیہ مذاکرات کے دوران وہ غزہ میں سرنگوں سے حماس کی قطر میں موجود قیادت پر اثر انداز ہوتا رہا۔
آئی ڈی ایف کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری نے ہفتے کے روز کہا کہ حماس کے جن کمانڈروں کو حالیہ ہفتوں میں پکڑا گیا اور ان سے پوچھ گچھ کی گئی، انہوں نے دعویٰ کیا کہ "حماس کی قیادت بشمول سنوار، غزہ میں گروپ کی صورتحال کے بارے میں حقیقت سے لاتعلق اور انکاری ہے"۔
فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ لڑائی میں 15,000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ IDF کا اندازہ ہے کہ ان میں سے تقریباً 6000 حماس کے عسکریت پسند تھے۔
ہگاری نے مزید کہا کہ پچھلے کئی دنوں میں پکڑے گئے حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیلی تفتیش کاروں کو بتایا ہے کہ " گروپ کی قیادت جو زیر زمین چھپی ہوئی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ زمین کے اوپر فلسطینی آبادی کی صورتحال کو نظر انداز کر رہی ہے۔"
حالیہ دنوں میں، العربیہ اور الجزیرہ ٹی وی نیٹ ورکس نے غزہ میں متعدد فلسطینیوں کے انٹرویوز نشر کیے جنہوں نے غزہ کی سنگین صورتحال پر حماس اور خاص طور پر سنوار پر تنقید کی۔کچھ نے حماس پرغزہ میں بھیجی گئی انسانی امداد چوری کرنے کا الزام لگایا۔
یحییٰ سنوار کون ہے؟
سنوار خان یونس میں پیدا ہوا اور وہیں پرورش پائی، 1987 میں حماس کے ملٹری ونگ کے قیام کے بعد سے اس کا رکن رہا ہے، اور اس کے انسداد انٹیلی جنس بازو کی قیادت کرتا رہا ہے۔
1989 میں اسے ایک اسرائیلی عدالت نے یحییٰ سنوار کو چار فلسطینیوں کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیا تھا جن پرحماس گروپ کے اندر اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام تھا۔ اسے اسرائیلی جیل میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ سنوار اسرائیل میں حماس کے قیدیوں میں ایک رہنما بن گیا، عبرانی زبان سیکھی اور اسرائیلی معاشرے اور سیاست کا مطالعہ کیا۔
سنہ 2011 میں، سنوار کو ایک ہزار دیگر فلسطینی قیدیوں کے ساتھ اسرائیلی نوجوان فوجی گیلاد شالیت کی رہائی کے بدلے رہا کیا گیا تھا، جسے پانچ سال قبل حماس نے یرغمال بنا لیا تھا۔
اسرائیلی اور عرب حکام کا کہنا ہے کہ سنوار کے جیل میں گزرے ہوئے 22 سال ان کی زندگی کا سب سے ابتدائی دور تھا اور اس نے ان کی سوچ اور عالمی نظریہ کو ڈھالا۔
ایک عرب اہلکار نے کہا کہ سب سے پہلے وہ قیدی رہنما ہیں۔
جب وہ غزہ واپس آئے تو سنوار نے حماس کے سیاسی اور عسکری آلات میں اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کیں اور 2017 میں وہ غزہ میں تنظیم کا سربراہ منتخب ہوا۔ وہ جلد ہی حماس میں سب سے زیادہ بااثر شخص بن گیا اور اس گروپ کے اندر تبدیلیوں کو آگے بڑھایا جس نے غزہ کو گروپ کا مرکزی طاقت کا مرکز بنا دیا۔
مارچ 2021 میں، سنوار کو غزہ میں حماس کا دوبارہ سربراہ منتخب کرنے کے لیے حماس کے خفیہ داخلی انتخابات میں ووٹنگ کے چار راؤنڈ کروانا پڑے تھے، اس وقت اطلاعات تھیں کہ سنوار اپنے حریف نزار عواد اللہ سے شکست کھا گئے تھے، لیکن انھوں نے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور آخرکار تنظیم کو سنوار کو ہی غزہ کا لیڈر ماننا پڑا۔ سنوار کے دوبارہ انتخاب نے حماس کی قیادت پر اس کی گرفت مضبوط کر دی اور قطر اور لبنان میں حماس کی قیادت کو کمزور کر دیا۔
اسرائیلی حکام کا خیال ہے کہ سنوار کو ختم کرنے سے نہ صرف جنگ کے خاتمے میں مدد مل سکتی ہے - اس سے نیتن یاہو پر اسرائیلی عوام کا اعتماد بحال کرنے میں مدد مل سکتی ہے، جن پر بہت سے اسرائیلی قوم کو 7 اکتوبر کے حملے کے لیے تیار نہ ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔
دوسری جانب یحییٰ سنوار کے بارے میں اسرائیل سمیت کسی کو بھی معلوم نہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔ وہ شمالی غزہ کی کسی سرنگ میں مینوں تک محفوظ رہ سکتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ وہ اسرائیل کی فوج کی پہنچ سے میلوں دور جنوبی غزہ کی کسی آبادی میں یا آبادی سے بھی دور کسی سرنگ میں محفوظ ہوں، عرب زرائع کا کہنا ہے کہ یحییٰ سنوار تک پہنچنے کے لئے اسرائیل کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی اور وہ زیادہ دیر تک یہ قیمت ادا نہیں کر پائے گی۔