سٹی42: پاکستان آرمی کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید جس ٹاپ سٹی کیس کی انکوائری کے نتیجہ میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا سامنا کر رہے ہیں، بہت سے پاکستانی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ ٹاپ سٹی کیس ہے کیا۔
پاک آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ نے آج بتایا کہ ملک کے اہم ترین سکیورٹی انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں شکایات کی تحقیقات کے بعد انہیں تحویل میں لیا ہے اور ان کے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔
فوج کی جانب سے پیر کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ ٹاپ سٹی کیس کی انکوائری کے بعد ’نتیجتاً پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف سخت تادیبی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔‘
آئی ایس پی آر کے بیان کے بعد سے ہر پاکستانی یہ جاننا چاہتا ہے کہ ٹاپ سٹی کیس کیا ہے۔
ٹاپ سٹی کیس کیا ہے
اسلام آباد میں واقع ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کنور معیز احمد خان نے نومبر 2023 میں پاکستان کی سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں انہوں نے براہ راست سابق جنرل فیض حمید پر اختیارات کے غلط استعمال کا الزام عائد کیا ۔
معیز احمد خان نے اپنی درخواست میں کہا کہ 12 مئی 2017 کو پاکستان رینجرز اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے دہشت گردی کے ایک مبینہ مقدمے کی آڑ میں ٹاپ سٹی کے دفتر اور معیز احمد خان کے گھر پر چھاپہ مارا ، اس چھاپے کے دوران ان کے گھر سے سونا، ہیرے، نقدی اور متعدد قیمتی اشیا قبضے میں لی گئی تھیں۔
معیز احمد خان نے درخواست میں مزید کہا کہ اس واقعہ کے بعد فیض حمید کے بھائی سردار نجف نے" ثالثی" کی اور مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی، معیز احمد خان کی بریت کے بعد فیض حمید نے معیز خان کے ایک رشتہ دار کے ذریعے ان سے ملاقات کا بندوبست کرنے کے لیے بھی رابطہ کیا۔
درخواست گزار معیز احمد خان نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس ملاقات کے دوران فیض حمید نے چھاپے کے دوران چھینا گئے 400 تولہ سونے اور نقدی کے سوا باقی سب چیزیں واپس کرنے کی پیشکش کی تھی۔
معیز احمد خان نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر (ر) نعیم فخر اور بریگیڈیئر (ر) غفار نے انھیں چار کروڑ روپے نقد ادا کرنے اور ایک نجی چینل ’آپ ٹی وی‘ کو سپانسر کرنے پر بھی مجبور کیا۔
سپریم کورٹ میں ٹاپ سٹی کیس کی سماعت کے دوران کیا ہوا تھا
سپریم کورٹ مین کنور معیز احمد خان کی اس درخواست پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین پر متشمل بینچ نے کی تھی۔ اس بینچ نے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف تحقیقات کا حکم بھی دیا تھا، جس کے بعد پاکستانی فوج نے اپریل 2024 میں تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنائی تھی۔
معیز احمد خان کی درخواست پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے سماعت کی اور 9 نومبر کو درخواست گزار کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور ان کے معاونین کے خلاف شکایات کے ازالے کے لیے وزارت دفاع سمیت متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا حکم دیا۔
عدالت نے یہ بھی نشان دہی کی کہ درخواست گزار بدنیتی پر مبنی مقدمہ چلانے پر جنرل (ر) فیض حمید اور دیگر ریٹائرڈ افسران کے خلاف سول یا فوجداری عدالت میں کیس دائر کر سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کی ہدایات پر مِن و عن عمل
پاکستان آرمی نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے ساتھی جج پر مشتمل بنچ کی ہدایت پر مِن و عن عمل کیا اور ایک میجر جنرل کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کی سربراہی میں یہ انکوائری 17 اپریل 2024 کو تشکیل دی گئی تھی تاکہ جنرل کے خلاف دعوؤں کی تحقیقات کی جا سکیں۔
اس کمیٹی نے فوج کے سینئیر ترین ریٹائرڈ آفیسر کے ٹاپ سٹی کیس میں ملوث ہونے کی غیر جاندارانہ اور پیشہ ورانہ طریقہ سے انکوائری مکمل کی۔ آج اس انکوائری کا نتیجہ آئی ایس پی آر نے قوم کے سامنے رکھ دیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید (ر) کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت مناسب تادیبی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔
تحقیقات کے دوران فیض حمید کے ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے کے کچھ واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔اب سابق جنرل فیض حمید کے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا آغاز ہو چکا ہےفیض حمید کو فوج نے تحویل میں لے لیا ہے۔