تبدیلی کی نوید ارشد ندیم 

تحریر :عامر رضا خان 

12 Aug, 2024 | 06:51 PM

پیرس اولمپک میں گولد میڈل جیتنے کے بعد ارشد ندیم نے کم از کم اُن سیاسی مچھندروں کا منہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا ہے جو یہ کہتے نہیں تھکتے تھے بانی تحریک انصاف نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے کسی اور نے کیا ہے تو بتائیں ؟ لیکن وہ اس بات سے ہمیشہ پہلو بچا کر نکلتے رہے کہ کرکٹ دور غلامی میں انگریز کی پسندیدہ کھیل میں مدد فراہم کرنے والوں نے غلام ملکوں میں مقبول بنایا یہی وجہ ہے کہ چند سال بیشتر تک صرف 9 ممالک جو کسی نا کسی دور میں انگریز کے ہاتھوں غلامی کا شکار ہوکر اپنی زبان و ثقافت کو بھول گئے وہیں وہ اپنے کھیلوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان 9 ممالک میں عوام کا یہ کھیل مقبول ترین کھیل رہا کہ دور غلامی کی عادتیں کم ہی نکلتی ہیں اس نو ملکوں والے کھیل میں صرف ایک مرتبہ ہم سب کو ہرا کر ون ڈے فارمیٹ کے چیمپئن بنے اور اسی بنیاد پر ہیرو ازم کا وہ سیلاب آیا جو پہلے تمام کھیلوں کو بہا لے گیا اور اس کے بعد سیاست کا ایسا سونامی بنا جس نے ہماری سیاست سے اخلاق اور اقدار کا جنازہ نکالا ،

یہ ہیرو ازم ایک ایسا نشہ بنا جس کے کرنے والوں نے اپنے ہیرو کے ہر کہے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے زمین و آسمان کے قلابے مادئیے اُس نے کہا کہ نیوٹرل تو حیوان ہوتا ہے انسان نیوٹرل ہو ہی نہیں سکتا تو سب "بینڈ باجے" لیکر اسی دھن کو بجانے لگے لیکن چند دن ہی گذرے تو ہیرو ازم یا اسے اگر دیوتا پوجا کہہ لیں تو ذیادہ بہتر ہوگا کے دہن خاکی سے یہ بیان جاری ہوا کہ ادارہ ہمارے لیے نیوٹرل ہوجائے یہ سیاست کا معاملہ ہے تو پھرشامل واجے سامنے آئے اور اپنے اپنے ہارمونیم لیکر اس قوالی میں ہمنوا بن گئے گو دیوتا کے منہ سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ سچ اور باقی سب جھوٹ ہے ۔  
یہاں سے آگے چلتے ہیں پیرس اولمپک پاکستانیوں کو صدیوں نہیں بھولے گا اگست کا مہینہ تو پہلے ہی ہمارے دلوں کو 14 اگست کے حوالے سے گرمائے رکھتا ہے کہ اس مبارک دن مملکت پاکستان کا جنم ہوا ، اور اب ہمیں 8 اگست بھی یاد رہے گا کہ کھیلوں کے حوالے سے اس بانجھ ملک میں پہلا سونے کا انفرادی میڈل آیا میڈلز تو پہلے بھی آتے رہے ہیں ریسلنگ اور ہاکی میں لیکن انفرادی گولڈ یہ پہلا تھا اولمپک مقابلے دنیا بھر میں کھیلوں کے حوالے سے وی وی آئی پی کی حیثیت رکھتے ہیں اس وقت اولمپک چارٹر کے تحت 206 ممالک پانچ چھلوں والے سفید پرچم کے سائے تلے جمع ہیں اور ان کھیلوں میں گولڈ میڈل لینا تو گویا کسی جوئے شیر کے لانے سے کم نہیں ہے ،جو عزت و وقار ان کھیلوں میں جیتنے والوں کو ملتا ہے وہ کرکٹ سمیت دوسرے کسی کھیل سے کئی ہزار گنا ذیادہ ہے آپ اس بات کا اندازہ اس بات سے ہی لگا لیجئے کہ پاکستان نے پہلی مرتبہ ایک گولڈ میڈل جیتا ہے تو کس طرح بہت سے ممالک نے اپنے نمائندوں کے ذریعے مبارکباد کے پیغامات بجھوائے ہیں ۔
 اب آپ ہی اندازہ کرسکتے ہیں کہ کہاں 9 ممالک اور کہاں 206 کہاں مقابلہ ہے لیکن اب ایک انجانا سا خوف دامن گیر ہے کہ کہیں  یہ دیوتا پرست قوم اگر ایک کرکٹر کو ہیرو بنا کر جھوٹ کی پوجا کر سکتی ہے تو ارشد ندیم نے تو ساری دنیا کو نیچا دکھا کر نیزا 92.97 میٹر پھینک کر بتادیا کہ مسلمان آج بھی کوشش و ہمت کریں تو سب سے آگے نکل سکتے ہیں اب اگر اس ہیرو کی بھی پوجا شروع ہوئی تو پھر وہ دن دور نہیں جب " وزیر اعظم ارشد ندیم ، تبدیلی کی نوید ارشد ندیم " جیسے نعرے سننے کو ملیں گے ۔
ارشد ندیم کے متعلق دیو مالائی قصے کہانیاں تو ابھی سے زبان زد عام ہیں کہ کیسے ایک نوجوان نے نا مساعد حالات ، غربت اور بے بسی میں صرف اپنے بل بوتے پر گولد میڈل جیت لیا یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ ویٹ لفٹنگ کے معمولی پرانے زنگ زدہ سامان پر وہ پریکٹس کرکے اولمپک میں پہنچ گیا۔

ایک خاتون یو ٹیوبر چیخ چیخ کر بتا رہی تھی کہ حکومت پاکستان نے کبھی ایک دھیلے کا سامان ارشد ندیم کو لیکر نہیں دیا ، ایک یوٹیوبر نے غربت کی ایسی تصویر کھینچی کہ دل چاہا کہ اس مرتبہ کی زکوۃ کا اصل حقدار ارشد ندیم ہی ہے کیونکہ بتایا جارہا تھا کہ اس نے اولمپکس کے لیے اینٹوں  کے بھٹے پر بھی مزدوری کر رکھی ہے اور ایک حضرت صاحب نے تو چند بشارتوں کا بھی ذکر کردیا کہ ارشد ندیم کے متعلق یہ یہ کچھ کہہ رکھا ہے لیکن میں یہ سب سُن پڑھ کر صرف زیر لب مسکراتا رہا کہ ارشد ندیم پر تبصرے وہ لوگ کر رہے ہیں جو کھیلوں کے بارے میں شائد وہ معلومات نہیں رکھتے کسی ایک کھلاڑی کو اولمپکس تک پہنچنے کے لیے جس بھٹی سے گزرنا ہوتا ہے اُس میں جلنے کے لیے کھلاڑی کے اللہ کی جانب سے دی جانے والی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ مناسب سرپرستی اور اس کے ساتھ ساتھ  ڈالرز اور روپے کا ایندھن بھی درکار ہوتا ہے یہ کوئی آسان کام نہیں کہ کھلاڑی اولمپک میں جائے ۔
وہ اس وقت لیسکو میں گریڈ 18 کے افیسر ہیں اور یہاں تک لانے کے لیے لیسکو اور اتھلیٹکس فیڈریش کے سربرا جنرل اکرم ساہی کی خدمات ہیں ارشد نے 2016 میں ساوتھ ائشین گیمز میں حصہ لیا اور برونز میڈل جیتا یوں وہ دنیا بھر کی نظروں میں آئے حکومتی سرپرستی کے ساتھ ساتھ مارٹیس سکالر شپ بھی ملا ، انٹرنیشنل اتھلیٹکس فیڈریشن نے انہیں پاکستان اتھلیٹکس فیڈریشن کی درخواست پر ہائی پرفارمنس ٹریننگ کے لیے منتخب کیا  جہاں بہترین ٹریننگ میسر آئی 2017 میں جونیئر ایشین گیمز میں حصہ لیا جس کے بعد انٹرنیشنل مقابلوں کی ایک لمبی فہرست ہے وہ کہاں نہیں گئے ، باکو ، آسٹریلیا ،جکارتہ ،دوہا مختلف نواع کے ایونٹس اور سرپرستی سے ارشد خام مال سے کندن بنتا چلا گیا ، 2022 میں انہیں ورلڈ چیمپئن شپ سے پہلے ساوتھ افریقہ میں دنیا کے ٹاپ کوچ ٹریسس لینبرگ کے پاس بجھوایا گیا جس نے اس ہیرے کی مزید تراش خراش کی 
اسی سال وہ کہنی کی انجری کا شکار ہوئے تو ان کا بیرون ملک علاج کرایا گیا جس کا خرچ اتھلیٹکس فیڈریشن نے برداشت کیا ایسا ہرگز نہیں کہ ارشد ندیم چک چھپ کلاں میں دودھ لسی کی طاقتوں سے اتنے بڑے مقابلے کے لیے پہنچ گیا  ایسے مقابلے بڑے اداروں، حکومتی سپورٹ اور بہترین ٹریننگ سے ہی جتنا ممکن ہوتا ہے، کوئی پیدائشی سپرمین نہیں ہوتا کہ پنڈ میں تھرو پھیکنتا پھیکنتا اولمپکس جیت لے۔
ارشد ندیم بلا شبہ اس قابل ہیں کہ اُن کے مجسمے لگائے جائیں لیکن اُن کے اس کارنامے کو اُن کی غربت کے نیچے ڈال کر جن افراد اور اداروں نے ان کی مدد کی اُسے نظر انداز کردیا جائے

مزیدخبریں