(ملک اشرف)لاہور ہائیکورٹ نے جعلی دودھ فروخت کرنیوالوں کو انسانیت کا دشمن اور ملک پر بدنما دھبہ قرار دیتے ہوئے 5 ملزموں کی ضمانت خارج کردی۔ جسٹس سہیل ناصر نے چار صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا، عدالتی فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ جرم قابل ضمانت ہونے کے باوجود ملزم ضمانت کے حق کا دعوٰی نہیں کر سکتے، مصنوعی دودھ معصوم بچوں کیلئے زہر قاتل ہے، انسانی جسم کو بیماریوں کا گھر بنا دیتا ہے، مصنوعی ہارمونز کینڈا، بھارت، یورپ سمیت کئی ممالک میں ممنوعہ قرار دیئے جا چکے ہیں
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سہیل ناصر نے جعلی دودھ فروخت کرنیوالوں کو انسانیت دشمن قرار دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ بادی النظر میں ملزموں نے مصنوعی دودھ فروخت کر کے معاشرے کیخلاف جرم کیا، ایسے ملزم انسانیت کے دشمن، ملک کیلئے بدنما دھبہ ہیں۔جسٹس سہیل ناصر نے مصنوعی دودھ فروخت کرنے کے مقدمہ کے 5 ملزموں اللہ یار سمیت دیگر کی درخواست ضمانت خارج کرنے کا چار صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا ۔
تحریری فیصلہ کو عدالتی نظیر قرار دیا گیا ہے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزم مصنوعی دودھ بنانے میں مصروف تھے،محض فیکٹری میں ملازمت کا دفاع نہیں لے سکتے،چھاپے کے دوران ملزموں کے پاس سے کوکنگ آئل، خشک دودھ پائوڈر اور دیگر اشیا برآمد ہوئیں۔ مصنوعی دودھ میٹھا زہر، جس میں ڈیٹرجنٹ یا صابن اور یوریا استعمال کیا جاتا ہے،مصنوعی دودھ اگرچہ فوری موت کا سبب نہیں بنتا مگر انسانی جسم کو بیماریوں کا گھر بنا دیتا ہے۔
جسٹس سہیل ناصر نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ مصنوعی دودھ آنکھوں میں سوجن، جگر اور گردوں میں پچیدگیوں کا سبب بنتا ہے، حاملہ خواتین، دل اور بلڈ پریشر کے مریضوں کیلئے جان لیوا ثابت ہوتا ہے، 20 لاکھ لیٹر مصنوعی دودھ روزانہ شہری علاقوں میں منتقل کئے جانے کی رپورٹس شائع ہو چکی ہیں، ڈیریز پر بھی جانوروں کو مصنوعی ہارمونز لگا کر دودھ نکالے جانے کی رپورٹس شائع ہو چکی ہیں، آکسیٹوسین ہارمون انسانوں میں کینسر اور دیگر بیماریوں کا سبب بننے کی خبریں بھی شائع ہوئیں، فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ ملزم ضمانت کے حق کا دعوٰی نہیں کر سکتے، عدالت نے اپنا صوابدیدی اختیار ہر کیس کی نوعیت کے مطابق استعمال کرنا ہوتا ہے، ملزم اللہ یار، عمر حیات، اکبر، اختر حسین اور محمد اعظم نے ضمانت کیلئے رجوع کیا تھا، ملزموں پر عارفوالا میں فیکٹری لگا کر مصنوعی دودھ بنانے کا الزام ہے