ویب ڈیسک:سینئر صحافی اسد طور نے انکشاف کیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے مذاکرات کی حامی بھر لی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ پیغام بھی بھیجا ہے کہ وہ ہر قسم کی شرطیں ماننے کیلئے بھی تیار ہیں۔
ملک میں سیاسی عدم استحکام گزشتہ ایک سال سے جاری ہے جس نے ملکی معیشت کو آئی ایم ایف کی سخت شرطوں کے سامنے لا کھڑا کیا ہے ، سیاسی عدم استحکام کا آغاز گزشتہ برس پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے سے سامنے آیا اور پھر یہ طویل سے طویل اورسخت سے سخت ہوتا جا رہا ہے ، جس کی وجہ پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کے میز پر نہ آنا بتایا جاتا رہا ہے، لیکن اب سینئر صحافی اسد طور نے انکشاف کیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے مذاکرات کی حامی بھر لی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ پیغام بھی بھیجا ہے کہ وہ ہر قسم کی شرطیں ماننے کیلئے بھی تیار ہیں۔
تفصیلات کے مطابق اسد طور نے اپنے وی لاگ میں انکشاف کیا ہے کہ سیاست کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور سپریم کورٹ میں بھی دھڑے بن چکے ہیں ، فوج میں 2 دھڑے ہیں ایک دھڑاآرمی چیف جنرل عاصم منیر کےساتھ جبکہ دوسرا ان کے خلاف ہے جو سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے ساتھ ہے ، اسی طرح سپریم کورٹ میں بھی دھڑے بندی ہے، ایک دھڑا چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا ہے جبکہ ایک دھڑاان کے خلاف ہے ۔
اسد طور نے اپنے وی لاگ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی دھڑے بندی ہو چکی ہے، ایک دھڑا نواز شریف او ر دوسرا وزیر اعظم کا ہے ، لیکن ابھی تک پی ٹی آئی میں دھڑے بندی نظر نہیں آ رہی کچھ لوگ ابھی انتظار میں ہیں کہ فائنل باری پر فیصلہ کیا جائیگا کہ کس طرف جانا ہے ۔
سینئر صحافی نے انکشاف کیا کہ بیک ڈور چینل مذاکرات میں پی ٹی آئی چیئر مین کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کو پیغام بھیجا گیا ہے کہ وہ تمام شرطیں ماننے کیلئے تیار ہیں لیکن انہیں پھر سے موقع دیا جائے، جس پر اسٹیبلشمنٹ نے انہیں کوئی پیغام تو نہیں بھیجا البتہ ایک بہت بڑی گیم ضرور ان کے ساتھ کھیلی ہے، سینئر صحافی کے مطابق اسٹیبلشمنٹ نے پہلے تو مذاکرات کیلئے عمران خان سے کہا کہ یہ کرو وہ کرو اپنی باتیں منوائیں اور پھر اچانک سے مذاکرات چینل بند کر دیا ، اب پھر سے عمران خان اس چینل سے بات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور پیغام بھیجا ہے کہ ہر طرح کی شرط ماننے کیلئے تیار ہیں ، لیکن اسٹیبلشمنٹ کومسئلہ ان کی فیض یابی کا ہے، کیونکہ انہیں پتا ہے کہ عمران خان جنرل فیض سے مل کر گیم کھیل رہے ہیں، دوسری جانب حکومتی اکثریت بھی عمران خان سے بات چیت کے حامی نہیں ہے ، البتہ پاکستان پیپلز پارٹی نے رائے دی ہے کہ پی ٹی آئی سے بات کی جائے لیکن وہ بھی ساتھ میں عمران خان سے گرنٹی مانگ رہے ہیں ۔