ویب ڈیسک : قومی اسمبلی میں قائد اختلاف کا عہدہ خالی ۔ اگر پاکستان تحریک انصاف مستعفی ہونے کا فیصلہ نہ کرتی تو سابق وزیراعظم عمران خان یا شاہ محمود قریشی قائد حزب اختلاف بن جاتے تاہم ان کے مستعفی ہونے کے بعد ایک بڑا سوال یہ ہے کہ قائد حزب اختلاف کون ہوگا؟
قومی اسمبلی کے قواعد کے مطابق انتخابات کے فوری بعد وہ جماعتیں جو اپوزیشن نشستوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کرتی ہیں ان میں سے اکثریتی تعداد تحریری طور بھی قائد حزب اختلاف نامزد کرکے سپیکر کو آگاہ کرتی ہے جس پر سپیکر قائد حزب اختلاف کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیتا ہے۔ اگر اپوزیشن ارکان قائد حزب اختلاف تبدیل کرنا چاہیں تو وہ کسی بھی دوسرے رکن کو نامزد کر سکتے ہیں۔
تاہم اب جبکہ ایوان میں سب سے زیادہ تعداد رکھنے والی جماعت مستعفی ہو چکی ہے تو قائد حزب اختلاف کے لیے تین آپشنز باقی بچتے ہیں۔
سب سے پہلا آپشن پاکستان تحریک انصاف کے وہ ارکان جو پارٹی فیصلے کے خلاف ایوان سے مستعفی ہونے سے انکار کرتے ہیں اور خود کو ایک پارلیمانی گروپ کے طور پر ایوان میں رکھتے ہیں تو ان کی تعداد پھر بھی کسی بھی دوسری جماعت سے زیادہ ہے اور وہ اپنے کسی ایک رکن کو نامزد کر سکتے ہیں۔
تحریک انصاف کے منحرف ارکان کے علاوہ جی ڈی اے ایسی جماعت ہے جس کے پاس چار نشستیں ہیں اور اگر وہ اپنی اتحادی تحریک انصاف کے برعکس ایوان میں رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو سابق سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا نام قائد حزب اختلاف کے لیے سامنے آ سکتا ہے۔ اگر وہ قائد حزب اختلاف بنتی ہیں تو بے نظیر بھٹو کے بعد وہ دوسری خاتون قائد حزب اختلاف ہوں گی۔
یادرہے کچھ عرصہ پہلے تک قائد حزب اختلاف کا عہدہ حکومت مخالف عہدہ ہی سمجھا جاتا تھا جو ایوان میں حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے، احتجاج کرنے اور اپوزیشن ارکان کی قیادت تک محدود تھا۔ تاہم 2008 کے بعد قائد حزب اختلاف کو پارلیمان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے کی روایت کے ساتھ ساتھ چیف الیکشن کمشنر، ممبران الیکشن کمیشن، چیئرمین نیب سمیت متعدد آئینی عہدوں پر تعیناتی کے لیے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان بامعنی مشاورت کو یقینی بنانے کے حوالے قانون سازی کی گئی ہے۔