تین تین دھانسو خبریں ہیں پہلی تو چھاپے کے وقت لیڈیز واش روم میں کون کون چھپ کر بیٹھا ، دوسری خبر کے جنرل( ر) فیض حمید کے خلاف تمام ثبوت اکٹھے کر لیے گئے ہیں اور انہیں اب کورٹ مارشل کے لیے پیش کیا جائے گا اور تیسری خبر پر آپ کو اس لیے خوشی ہوگی کہ جانے انجانے چاہتے نا چاہتے ہوئے ڈیم فنڈ میں جو رقم سپریم کورٹ میں جمع کی گئی تھی اس کا کھاتا کُھل گیا ہے چلیں باری باری آپ کو ان خبروں بارے تفصیل سے بتاتے ہیں ۔
تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کی گرفتاری کے لیے پارلیمنٹ لاجز میں جو چھاپہ مارا گیا اس کی گونج آج کے دن تک سنائی دے رہی ہے اسمبلی میں بھی دھواں دار تقریریں کی جارہی ہیں لیکن ایسے میں ایک خبر آئی ہے کہ چھاپے کے وقت دو اراکین اسمبلی نے لیڈیز باتھ روم میں چھپ کر پناہ لینے کی کوشش کی لیکن جو آئے تھے وہ "دل والے تھے دلہنیا لیکر ہی گئے" چاہے وہ لیڈیز باتھ روم ہی کیوں نا چھپی ہوئی ہو، جی ہاں جو خبر نکل کر سامنے آئی ہے دروغ برگردن راوی وہ یہ ہے کہ جس وقت چھاپہ مارا گیا تو شیخ وقاص اکرم اور شاہ محمود قریشی کے سپوتِ اول زین قریشی نے خواتین کے لیے مختص واش روم میں چھپ گئے، ظاہر ہے شرم سے چھپے ہوں گے نادان دلہنیں ایسے ہی چھپا کرتی ہیں لیکن جنہیں سہاگ رات کا شوق ہو وہ باتھ روم تو کیا پاتال سے بھی دلہن نکال لاتے ہیں اور یہی ہوا بقول راوی باتھ روم کا دروازہ توڑا گیا اور دونوں کو نکال کر "کار سرکار" مکمل کیا گیا ۔
اب آجائیں دوسری خبر کی جانب کہ جس کے بریک کرنے والے عمران خان کے سابق یار گار اور موجودہ فوجی حلقوں کے دوست سمجھے جانے والے صحافی محسن بیگ ہیں جن کے مطابق جنرل (ر )فیض حمید اور عمران خان کے روابط کی مکمل تفصیل ڈی کوڈ کر لی گئی ہے، تحقیقات مکمل ہیں۔ انہوں نے جو لکھا وہ من و عن ایسے ہے۔
"اہم ترین خبر دے رہا ہوں کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل( ر) فیض حمید سے تحقیقات مکمل ہوگئی ہیں ان کے کیس میں تقریبا دو سو افراد کوگرفتار کرکے تحقیقات کی گئیں اور یہ تمام تحقیقات آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے براہ راست ماتحت سپیشل انویسٹیگیشن بٹالین نے کی ہیں، اب تمام حقائق شواہد دستاویزات ثبوت کورٹ مارشل ٹرائل کے دوران پیش کیے جارہے ہیں یہ جو علی امین گنڈاپور اور فسادی خان کہہ رہا ہے کہ ان کا جنرل (ر )فیض سے ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی تعلق نہیں تھا سفید جھوٹ ہے، ان کی طویل وٹس ایپ چیٹس پکڑی گئی ہیں جہاں ہر سازش اور منصوبہ بندی کا ذکر موجود ہے لہٰذا فتنہ خان اور اس کے تمام سہولت کاروں کا انجام قریب یہ فتنہ خان انتہائی خود غرض کینہ پرور انسان ہے وقت آنے پر سب کو ڈس اون کردے گا خود غرضی کی انتہا کو پہنچنے والا یہ شخص اب خود کو بچانے کےلئے کسی کی بھی بلی چڑھا سکتا ہے مگر اس بار بچاؤ ممکن نہیں کیونکہ ہاتھ بڑا مضبوط پڑا ہے کسی کو قربانی کا بکرا نہیں بنانے دیا جائے گا، انصاف کے تمام تقاضے اس کے ساتھ ہی پورے کیے جائیں گے۔۔۔بس صرف چند دن اور۔۔۔۔۔۔ "
اب اندازہ لگائیں کہ یہ ذرائع کتنے قریبی اور اہم ہیں اور محسن بیگ کا آخر میں یہ دعویٰ بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ بانی تحریک انصاف جسے محسن بیگ (فتنہ خان) کہہ رہے ہیں، اس کیس میں پھنستے بلکہ اپنی سیاست سمیت دھنستے نظر آرہے ہیں ۔
اب آئیے تیسری اہم خبر کی جانب جو میرے لیے اس لیے بھی اہم ہے کہ اس میں میرے بھی دس روپے لگے ہوئے ہیں ، خبر سپریم کورٹ آف پاکستان سے آئی ہے اس لیے مصدقہ ہی سمجھیں خبر کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ڈیم فنڈ کا حساب مانگ لیا ہے، انہوں نے اس کیس میں ہونے والی سماعت میں جو ریمارکس دئیے ہیں اُس میں سمجھنے والے کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں خاص کر اُن کے لیے جو ڈیم کنارے چارپائی کا کہہ کر دریائے ٹیمز کنارے بمع اہل و عیال فوٹو شوٹ کراتے رہے ، بچوں کی شادیوں پر مال لٹاتے رہے چھوڑیں خبر پڑھیں جو رپورٹ ہوئی ۔
دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم فنڈ کیس،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں چار رکنی لارجر بنچ سماعت کی ،وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے ڈیم فنڈ کی رقم مانگ لی ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ ایک متفرق درخواست جمع کرائی ہے کہ ڈیم فنڈ کے پیسے وفاق اور واپڈا کو جمع کرائے جائیں ،سپریم کورٹ کی نگرانی میں سٹیٹ بنک نے اکاؤنٹ کھولا تھا، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ڈیم فنڈ میں کتنے پیسے ہیں ؟ واپڈا کے وکیل نے جواب دیا تقریباً 20 ارب روپیہ ہے جس پر قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا یہ کیس شروع کیسے ہوا ؟ واپڈا کے وکیل نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے واپڈا کے زیر سماعت مقدمات کے دوران 2018 میں ازخود نوٹس لیا تھا، سپریم کورٹ کے ڈیم فنڈ عملدرآمد بنچ نے 17 سماعتیں کیں، چیف جسٹس نے پھر پوچھا کہ واپڈا کے اور بھی کئی منصوبے ہونگے؟ کیا سپریم کورٹ واپڈا کے ہر منصوبے کی نگرانی کرتی ہے؟ جس کے بعد سپریم کورٹ نے واپڈا کے وکیل پر ایسے تمام مقدمات پر جو کہ پرائیویٹ معاملات کے ہیں کا ریکارڈ طلب کر لیا ۔
یہاں ہم جناب چیف جسٹس صاحب آپ سے یہ بھی اپیل کرتے ہیں کہ بابا ڈیم نے جو غیرملکی تقریبات میں غیرملکی کرنسی میں پیسے اکٹھے کئے اسکا بھی حساب کریں تاکہ ہمیں ان الزامات میں بھی انصاف کا دودھ نظر آئے پانی نہیں، 20 ارب روپے کے سود کی بات بھی کی جائے ہمیں اصل سے زیادہ سود کی فکر ہے کیونکہ بینک نا سود کے بغیر پیسے دیتے ہیں نا سود کے بغیر لیتے ہیں ہمیں سود خور بھی تلاش کرنا ہے اس کیس میں۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر