فرخ احمد: سینئر اینکر اور تجزیہ کارسلیم بخاری نے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی جانب سے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کی فوری رہائی کے حکم کو زبر دست انداز میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوے کہا کہ جس طرح سپیکر نے اپنے ہاؤس کے ممبران کی رہائی ان کی عزت کی بحالی کیلئے جو اقدامات اٹھائے ہیں ان پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔
سلیم بخاری نے ان کا موازنہ سابق دور حکومت کے سپیکر سے کرتے ہوئےکہا کہ تحریک انصاف کے دور میں کیسے ممبران قید وبند کی صعوبتیں کاٹ رہے تھے اس ہاوس کے ممبر ہونے کے ناطے ان کو کوئی ریلیف نہیں ملتا تھا اور وہ کیسے بے یارومددگار ہوتے تھے؟ایاز صادق نے ہاوس کے ممبران کے دفاع کے لیے آئی جی کو سپیکر چیمبر میں بلا کر وارننگ دی کہ ان کو ایسے کیوں گرفتار کیا گیا جبکہ وہ پارلیمنٹ کے احاطے میں موجود تھے اور ان کا استحقاق تھا ۔
سلیم بخاری نے ارکان اسمبلی گرفتاری پر مزید کہا کہ اس چیز کو دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اس کی نوبت کیوں آئی ؟ ان کے مطابق پی ٹی آئی نے اپنے جلسے میں حکومت کے ساتھ جو ریڈ لائینز طے کی تھیں جن میں جلسے کا روٹ طے کیا گیا جلسے کا وقت طے کیا گیا ان کا پاس نہیں کیا گیا اور جلسے میں ریاست اور حکومت کے خلاف نازیبا تقاریر کیں جو کہ جلسہ سے پہلے طے تھا کہ اس پر احتیاط سے کام لیا جائے جو کہ نہ کیا گیااس لیے ریاستی مشینری حرکت میں آگئی۔
اسرائیلی میڈیا کی بانی پی ٹی آئی کے حق میں مہم پر سلیم بخاری نے کہا کہ اسرائیلی اخبار میں چھپنے والے آرٹیکل جس کو لوگ تعریف کہہ رہے ہیں میں اس کو تعریف نہیں مانتا ، انہوں نے کہا کہ ہم نے تو سنا تھا کہ جو اسرائیل کا دوست ہے وہ مسلمانوں کا دوست کیسے ہو سکتا ہے ؟خاص طور پر جب کہ موجودہ حالات میں جب فلسطین کے مسلمانوں کے قتل عام نے مسلم دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے کیسے کوئی اسرائیلی کی اس حمایت کو قبول کر سکتا ہے ؟جس کے ہاتھ سے مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہو اس کو خان صاحب کے لیے کیسے اچھا کہا جاسکتا ہے؟خان صاحب کے بچے جہاں پرورش پار ہے ہیں وہ ایک یہودی فیملی ہے وہاں سے پیغام رسانی اسرائیل کے ساتھ ہو رہی ہے ، انہوں نے کہا کیا یہ پیغام رسانی جنگ بندی کے لیے تھی نہیں بلکہ اقتدار کے حصول اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی چانسلر شپ کے لیے تھی، خان صاحب اقتدار کے لیے کیا اب مسلمانوں کے قاتلوں سے مد د لیں گے؟۔
پاک ، ایران گیس پائپ لائن پر تبصرہ کرتے ہوئے سلیم بخاری نے وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان کو سراہا کہ پہلی دفعہ کسی سیاست دان نےسچ بولا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ سب کو حقیقت کا ا دراک تھا لیکن زبان پر لانے کی ہمت اس لیے نہیں کرتے تھے کیوں کے اپنےآقا امریکہ کی ناراضگی سے ڈرتے تھے اور اتنا بڑا پرو جیکٹ بند کر دیا جو ہماری لائف لائن ہے جس سے ہم اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرسکتے ہیں لیکن بولنےکی ہمت اس لیے نہیں کرتے کہ کہیں امریکہ بہادر ناراض نہ ہو جائے،اسی طرح سی پیک پروجیکٹ بھی اسی لیے پایا تکمیل کو نہیں پہنچ پا رہا کیوں کے اس میں اسی طرح کی رکاوٹیں حائل ہیں ،انہوں نے کہا کہ امریکہ تو کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان کی معیشت ٹھیک ہو جائے اور وہ اپنے پاوں پر کھڑا ہو جائےلیکن جو لیڈر یا حکمران اس پاکستان کے دفاع میں نہیں بولتے وہ قومی مجرم ہیں۔