(ملک اشرف) لاہور ہائیکورٹ میں ماحولیاتی آلودگی کیس کی سماعت، جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیئے کہ سی سی پی او تو اپنے آئی جی کا حکم نہیں مانتے، کسی اور افسر کو حکم دے دیتے ہیں، عدالت نے پلاسٹک بیگز پر پابندی کے حکم کی خلاف ورزی پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس شاہد کریم نے شہری ہارون فاروق کی درخواست پر سماعت کی، جسٹس شاہد کریم نے استفسار کیا کہ فصلوں کو جلانے پر دفعہ144 کے نفاذ کا کیا بنا، جس پر سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ حکومت پابندی کے حوالے سے اقدامات کر رہی ہے۔
درخواست گزار وکیل نے کہا کہ محکمہ ماحولیات آلودگی پھیلانے والے صنعتی یونٹس کیخلاف کارروائی کرتا ہے مگر پولیس تعاون نہیں کرتی، محکمہ تحفظ ماحول کی درخواست پر متعلقہ پولیس مقدمہ بھی درج نہیں کرتی۔
درخواستگزار نے استدعا کی کہ سی سی پی او کو محکمہ ماحولیات سے تعاون کرنے کا حکم دیا جائے، جسٹس شاہد کریم نے درخواست گزار وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سی سی پی او کو کیوں کہنا ہے وہ تو اپنےآئی جی کی بھی نہیں سنتے۔
درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ عدالت نے پلاسٹک بیگز پر پابندی کا حکم دیا تھا، لیکن ڈی ایچ اے حکم کی تعمیل نہیں کر رہا، ڈی ایچ اے حکام محکمہ ماحولیات کی جانب سے سربمہر کی گئی دکانیں دوبارہ کھول دیتے ہیں، ڈی ایچ اے حکام کہتے ہیں کہ وہ محکمہ تحفظ ماحول کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔
ماحولیاتی آلودگی کمیشن کے وکیل نے کہا کہ اینٹی سموگ ٹاور بنانے والی آئی جی سی نامی این جی او نے پائلٹ پلان شروع کیا ہے۔
عدالت نے ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی فیکٹریوں کے خلاف کارروائی جاری رکھنے اور پولیس کو معاونت کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 18 ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے وکلاء کو مزید دلائل کیلئے طلب کرلیا۔