ویب ڈیسک : جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ آئینی ترامیم پر حکومت کا کالے تھیلے میں بھیجا گیا مسودہ مسترد کردیا تھا، ہماری تجاویز قبول کیں تو اتفاق رائے ہوسکتا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترمیم کے حکومتی مسودہ سامنے آنے پر بات شروع کی ہے، جے یو آئی کی قانونی ٹیم مسودے کا جائزہ لے گی، پشتون تحفظ مومنٹ اور اس کی قیادت نے جو جرگہ بلایا اور اس پر تشدد ہوا، کارکن شہید ہوئے، کچھ زخمی ہیں، ہم اس کارروائی کی مذمت کرتے ہیں،حکومت نے غیر مسلح لوگوں کو شہد و زخمی کیا،سمجھ نہیں آرہا اس تنظیم کو کالعدم کیوں قرار دیا گیا،یہ غیر جمہوری عمل ہے اس کی حمایت نہیں کی جاسکتی،ہم مطالبہ کرتے ہیں حکومت شہدا کو دیت ادا کرے اور زخمیوں کا اپنے طور پر علاج کرائے،اس حوالے سے ہم نے یکجہتی کے لیے وفد تشکیل دیا ہے۔
آئینی ترامیم پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ حکومتی اتحادی اور اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے اتفاق رائے کی جانب بڑھنا چاہتے ہیں،حکومت کا کالے تھیلے میں بھیجا گیا مسودہ مسترد کردیا تھا، آئینی ترمیم کا حکومتی مسودہ سامنے آنے پر بات شروع کی ہے، ہماری تجاویز قبول کیں تو آئینی ترمیم پر اتفاق رائے ہوسکتا ہے، ہمارے مؤقف کو عوام میں پذیرائی ملی ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے انیسویں ترمیم ختم کرنے اور اٹھارہویں ترمیم بحال کرنے کی تجویز دے دی ۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ مناسب مسودے پر اتفاق کرسکتے ہیں شرط ہے ہمارے مسودے پر اتفاق کیا جائے،تعجب ہے پارلیمانی کمیٹی میں مسودے کی کاپیاں تقسیم کی گیں ،بلاول بھٹو پہلے بھی ملاقاتیں کرچکے ہیں آج بھی ملنے آئے تھے،19 ویں آینی ترمیم حتم کرکے 18 ویں ترمیم بحال کرنے کی تجاویز دی ، حکومت کو اندازہ ہونا چاہے کہ ہمارے موقف کو عوام میں پذیرائی ملی، اس حوالے سے ہم پہلے بھی آواز بلند کرتی رہے ہیں،اس حوالے سے ہم اپنے طور پر تحریک کے لیے مشاورت کر رہے ہیں، مجلس شوری مکمل ہوتے ہی ہم ملک بھر میں احتجاج کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 19 ترمیم میں عدالت اصلاحات کے متعلق پارلیمنٹ کے کردار کو ختم کیا گیا، 19 ویں ترمیم کے خاتمے سے ججز کی تقریری میں پارلیمان کا کردار بڑھے گا ۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کو خدا کے واسطے سیاست سے تقسیم نہ کیا جائے،ہم نے اور عدلیہ نے قوم کا اعتماد بحال کرنا ہے،جے یو آئی اب بھی اپنے موقف پر قائم ہے،چاہتے ہیں کہ آئین اور عدلیہ میں اصلاحات کے مسودے پر اتفاق کیا جائے،پارلیمنٹ کو عوامی خواہشات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہے،ہمیں عدلیہ کا احترام ہے ، عدالتوں کو بھی قوم کا احترام کرنا چاہے،آئینی عدالت ہو یا آئینی بینچ ، دونوں ایک دوسرے کے متبادل ہوسکتے ہیں،دونوں صورتوں میں تنازعہ حل ہوسکتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ،آئینی اور سیاسی معاملات کو ایک طرف کیا جائے تاکہ عوام کے کیسیز نمٹائے جا سکیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کوشش ہے کہ پیپلزپارٹی اور جے یو آئی اتفاق رائے کریں ، پھر ہم پی ٹی آئی سے اتفاق رائے پیدا کریں ،آئینی ترمیم میں تاخیر پسند نہیں،18 ویں ترمیم کے لیے 9 ماہ لیے گئے ، ہمیں 9 دن تو دییے جائیں،دوست ممالک کی پاکستان موجودگی پر قومی اتفاق رائے ہونا چاہے،اپوزیشن سے کہا ہے کہ ایس سی او کانفرنس کے دوران مظاہرے نہ کرے،ہم نے ووٹ دینا ہوتا تو اب تک دے چکے ہوتے۔