سٹی42:نائب صدر کمیلا ہیرس کے سابق کمیونی کیشن ڈائریکٹر جمال سیمنز نے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف نیا محاذ کھولتے ہوئے صدر جو بائیڈن کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے عہدہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی عہدہ چھوڑ دیں اور47ویں صدر کمیلا ہیرس بن جائیں۔
جمال سیمنز نے یہ منفرد استدلال گھڑا ہے کہ اگر صدر جو بائیڈن آنے والے دنوں میں استعفیٰ دے دیں تو قانون کے مطابق نائب صدر کمیلا ہیرس الیکشن میں الیکٹورل ووٹ پورے نہ ہونے کے باوجود امریکہ کی 47 ویں صدر بن جائیں گی۔ "وہ اگلے 30 دنوں میں صدارت سے استعفیٰ دے سکتے ہیں، کملا ہیرس کو امریکہ کا صدر بنا سکتے ہیں۔ بائیڈن استعفیٰ دے کر کمیلا ہیرس کو 6 جنوری کو اپنی شکست کے نتیجہ میں ہونے والی اقتدار کی منتقلی کی نگرانی کرنے کی سبکی سے بچا سکتے ہیں۔ "
کمیلا ہیرس کے سابق کمیونیکیشن ڈائریکٹر جمال سیمنز نے اتوار کے روز یہ باتیں کہیں جن کو جریدہ پولیٹیکو نے رپورٹ کیا ہے۔ جمال سیمنز نے صدر بائیڈن کو استعفے پر قائل کرنے کے لئے مزید دلیل دی کہ "یہ (استعفیٰ) اس (بائیڈن) کا آخری وعدہ پورا کر دے گا،"بائیڈن نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی نائب صدر کمیلا ہیرس کو امریکہ کی 47 ویں صدر بنوا کر دم لیں گے۔ اگر خود جو بائیڈن آئندہ تیس دن کے دوران کسی وقت استعفیٰ دے دیں گے تو قانون کے مطابق نائب صدر کمیلا ہیرس از خود باقی باندہ مدت کے لئے صدر بن جائیں گی اور وہ امیرکہ کی 47 ویں صدر کہلائیں گی۔ وہ امریکہ کی پہلی خاتون صدر بننے کا ٹائٹل بھی حاصل کر لیں گی۔
"جو بائیڈن ایک غیر معمولی صدر رہے ہیں، انہوں نے بہت سے وعدوں کو پورا کیا جو انہوں نے کیے تھے۔ ایک وعدہ باقی ہے جسے وہ پورا کر سکتے ہیں: ایک عبوری شخصیت ہونے کے ناطے، "سیمنز نے بطور پینلسٹ CNN کے "اسٹیٹ آف دی یونین" شو میں کہا۔
"وہ اگلے 30 دنوں میں صدارت سے استعفیٰ دے سکتے ہیں، کمیلا ہیرس کو امریکہ کا صدر بنا سکتے ہیں۔ "وہ اسے 6 جنوری کو اپنی شکست کی منتقلی کی نگرانی کرنے سے بری کر سکتا ہے۔"
اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ کمیلا ہیرس خود صدر بائیڈن کا استعفیٰ چاہ رہی ہیں یا یہ کہ وہ پسند کریں گی کہ صدر بائڈن انہیں صدر بنانے کی خاطر استعفیٰ دیں۔ کمیلا ہیرس کی ٹیم نے جمال سیمنز کی اچانک سامنے آنے والی سنسنی خیز تجویز پر کمیلا ہیرس کی جانب سے کوئی رائے دینے یا تبصرہ کرنے کی سی این این کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔
جمال سیمنز کی جانب سے صدر جو بائیڈن ےک استعفے کی تجویز دراصل اس سوال کے جواب میں آئی تھی کہ صدر بائیڈن اور نائب صدر کمیلا ہیرس کے وائٹ ہاؤس میں آخری دو ماہ کے دوران سب سے زیادہ اہم کیس چیز کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس تجویز کے سامنے آنے کے وقت سی این این کے پروگرام مین جو پینل بیتھا تھا اس میں ایک تو جمال سیمنز ہی تھے جو سی این این کے پوڈ کاسٹ "ٹریل بلیز" کے خالق اور شریک میزبان بھی ہیں - سمینز کے ساتھ سیاسی حکمت عملی نگار سکاٹ جیننگز، اوباما کی مہم کے سٹاف میں شامل ایشلے ایلیسن اور قدامت پسند صحافی بریڈ ٹوڈ بھ پینل میں شامل تھے۔
"یہ (استعفیٰ) ایک ایسے موقع پر خبروں پر چھا جائے گا جہاں ڈیموکریٹس کو ڈرامہ اور شفافیت کی ضرورت ہے اور انہیں عوام میں وہ چیزیں کرنا ہوں گی جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے ڈیموکریٹس کے کام کرنے کے نقطہ نظر کو تبدیل کرنے کا لمحہ ہے،‘‘ سیمنز نے کہا۔
جمال سیمنز نے مزید کہا کہ اس اقدام سے نہ صرف اگلی خاتون کو راحت ملے گی جو "پہلی" خاتون صدر ہونے کے "تاریخی وزن" سے بھاگتی ہے، بلکہ صدر منتخب ڈونلڈ ٹرمپ کے کچھ تجارتی سامان (پروپیگنڈا مواد) میں آسانی سے خلل ڈالے گی، جو کہ "45-47" کے حوالے سے کہتا ہے۔ ٹرمپ 45ویں اور 47ویں صدر ہیں۔
پینل میں شامل پولیٹیکل سٹریٹیجسٹ جیننگز نے ہنستے ہوئے، سیمنز کی اس تجویز کو "ہاؤس آف کارڈز" سے اخذ کی گئی پلاٹ لائن قرار دیا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ سیمنز سپریم کورٹ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، جہاں بہت سے لوگ جسٹس سونیا سوٹومائیر کو مستعفی ہونے کے لیے دیکھ رہے ہیں تاکہ بائیڈن ان کا متبادل مقرر کر سکیں، سیمنز نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ کیا ہوگا۔
"اچھا سپریم کورٹ ہو سکتا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ ایسا ہو گا یا نہیں۔ میرے خیال میں (اپنی صدر کے عہدہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے استعدفیٰ دے دینا) وہ چیز ہے جو ، صدر جو بائیڈن کے اختیار میں ہے۔ اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو یہ ان کا آخری وعدہ پورا کرے گا، اس سے کمیلا ہیرس کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کی 47ویں صدر بننے کا موقع ملے گا۔
پوڈ کاسٹر جمال سیمنز نے اپنے سی این این کے شو مین گفتگو نشر ہونے کے بعد بعد ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں اپنے اس پیغام کو دوگنا شدت کے ساتھ بیان کردیا۔
انہوں نے ایکس میں لکھا، "بائیڈن کو استعفیٰ دے کر کملا ہیرس کو پہلی خاتون صدر بنانا چاہیے۔ یہ (استعفیٰ) میز کو ٹرمپ پر الٹ دے گا، کمیلا کو 6 جنوری کو صدارت کرنے سے روکے گا، اگلی خاتون کے لیے انتخاب لڑنا آسان ہو جائے گا،‘‘ انھوں نے لکھا۔