ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

فضا کی آلودگی کا سبب بھارتی پنجاب ہے یا خود پاکستانی پنجاب؟

فضا کی آلودگی کا سبب بھارتی پنجاب ہے یا خود پاکستانی پنجاب؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

بلال ارشد  : فضا کی آلودگی کی تمام تر صورتحال کا الزام ماہرین کی جانب سے بھارت میں مونجی اور فصلوں کی باقیات جلانے سے اٹھنے والے دھویں کو دیا جارہا ہے، یہیں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان میں آنے والا دھواں اگر بھارتی پنجاب سے آیا ہے تو خود بھارت کے شہروں میں یہ دھواں اُتنی مقدار میں کیوں نہیں ہے ۔ 

بھارت اور پاکستان کی جانب سے عرصے سے چلنے والی لفظوں کی جنگ کے سائرن پھر زور زور سے بج رہے ہیں، مسئلے کو ختم کرنے کی بجائے الزامات کی بارشیں کرنے میں بہت سے لوگ مصروف ہیں، اور لگائے جانے والے الزامات تو شاید اس مسئلے کی اصل وجہ بھی نہیں ہیں۔ ’’سموگ‘‘کا لفظ آج کل ہر کسی کی زبان پر ہے ، کوئی کہتا ہے کہ فصلوں کی باقیات کا دھواں ہے، کوئی اسے بے تحاشہ فیکٹریوں میں جلنے والے کیمکیلز کی وجہ بتاتا ہے، کسی کے نزدیک یہ تحاشا گاڑیوں کا دھواں ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اس موسم میں بھارت میں فصل جلانے سے پیدا ہونے والے دھوئیں سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ ان ماہرین کے مطابق بھارت سے چلنے والی ہواؤں کا رخ بدستور پاکستانی علاقوں کی طرف ہے، امرتسر سے چلنے والی تیز ہوائیں پاکستان میں سموگ کا باعث بن رہی ہیں ۔ لاہور سے امرتسر کا فضائی فاصلہ 45 کلومیٹر ہے ۔ سیٹلائٹ نقشے میں دکھایا گیا ہے کہ پاکستان میں مونجی اور فصلوں کی باقیات جلانے سے اٹھنے والا دھواں نہ ہونے کے برابر ہے، بھارت میں فصل جلانے اور دھوئیں کی مقدار بہت زیادہ دکھائی دے رہی ہے ۔ 

دوسری جانب بعض ناقدین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر پاکستانی پنجاب کے بعض شہروں میں بے تحاشا فضائی آلودگی کا سبب مشرقی پنجاب سے آنے والا فصلوں کی باقیات کا دھواں ہے تو خود مشرقی پنجاب کے شہر مثلاْ امرتسر کی فضا اس قدر آلودہ کیوں نہیں ہے ۔ 

بھارت کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ ہمارا کوئی قصور نہیں ہے ، یہ سارا دھواں پاکستان میں جلنے والی فصلوں کی باقیات سے آیا ہے۔

پاکستان بھی الزامات کی دوڑ میں پیچھے نہیں ہے، یہاں بھی اصل مسئلے کو دیکھنے اور اس کو ختم کرنے کی بجائے کہا جاتا ہے کہ یہ سارا آلودہ دھواں مشرقی بھارت کی کارستانیاں ہیں۔ دونوں ملکوں کی حکومتیں بیٹھ کر اس مسئلے کو ’مسئلہ کشمیر ‘‘ کی طرح سلجھانے میں مصروف ہیں ۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو جیسے آج ان حکومتوں کے کیے گئے فیصلوں کو ’مقبوضہ کشمیر ‘‘کے عوام جھیل رہے ہیں ویسے ہی ان دونوں ملکوں کی عوام جھیلے گی، اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔

’’فصلوں کی باقیات جلانا‘‘ اس موضوع کو پکڑ کر پنجاب کی حکومت اور ماحول کے تحفظ کے ذمہ دار  اپنا وقت گزار رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو آج سے پہلے بھی تو  ’’فصلوں کی باقیات‘‘ جلائی جاتی تھیں، تب کیوں نہیں یہ صورتحال بنی؟ ، جس قسم کی آب و ہوا آج ہم سب دیکھ رہے ہیں کیا یہ صرف ’فصلوں کی باقیات کا دھواں ہے‘ ، الزامات کی برسات کرنے کی بجائے اس مسئلے کی تہ  تک جایا جائے اور اصل وجہ ڈھونڈی جائے پھر اسے حل کیا جائے، کیونکہ الزامات لگانے سے آپکی حکومت کا وقت تو گزر جائے گا لیکن اس کا خمیازہ آپ کی آنے والی نسل جھیلے گی، لاہور کے بازار ، تعلیمی ادارے بند ہونے سے آزردہ  بہت سے لوگ خاموشی کی زبان سے کہہ رہے ہیں کہ خدارا اس مسئلے کو ’مسئلہ کشمیر ‘ نہ بنایا جائے، ماحول کی آلودگی کے مسئلہ کی جامع ریسرچ کروائی جائے اور اس کی بنیاد پر ٹھوس حکمتِ عملی اپنائی جائے ۔