سٹی42: پاکستان میں نیا بحران پیدا ہو گیا۔ خیبر پختونخوا کے نگراں وزیراعلیٰ اعظم خان کے انتقال کے بعد صوبائی کابینہ تحلیل ہو گئی۔ اس وقت صوبہ خیبر پختونخوا کا انصرام چیف سیکرٹری کے پاس ہے۔
آئینی اور قانونی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اعظم خان کے انتقال کے بعد نگران صوبائی کابینہ تحلیل ہو چکی ہے۔ کابینہ وزیراعلیٰ کے ساتھ منسلک ہوتی ہے، اگر وزیراعلیٰ کسی وجہ سے استعفیٰ دیدیں یا برطرف ہو جائیں تو کابینہ خود ہی تحلیل ہو جاتی ہے۔ کابینہ کی تحلیل کی حد تک تو آئین واضح ہے تاہم آئین اس بارے میں خاموش ہے کہ اب نئے نگراں وزیر اعلیٰ کا تقرر کون کرے گا۔
آئین میں اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں نگراں وزیر اعلیٰ کے تقرر کا طریقہ کار مکمل تفصیل کے ساتھ موجود ہے جس میں یہ اختیار موجود وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کو تفویض ہے اور اگر وہ دونوں طے شدہ طریقہ کار کے ساتھ مشاورت کے بعد بھی متفقہ نگراں وزیراعلیٰ کا تقرر نہ کر سکیں تو نگراں وزیر اعلیٰ کے تقرر کا معاملہ الیکشن کمشن کو منتقل ہو جاتا ہے۔ اب اعظم خان کے انتقال کے بعد نگراں وزیر اعلیٰ کے تقرر کے لئے کیا سابق وزیر اعلیٰ اور سابق اپوزیشن لیڈر سے رجوع کیا جائے گا یا الیکشن کمشن نئے نگراں وزیر اعلیٰ کا تقرر کرے گا؟ س سوال پر اس وقت ملک کے قانون اور آئن کے معاملات پر دسترس رکھنے والے شہریوں اور ماہرین میں بحث ہو رہی ہے۔
21 جنوری2023کوبطور نگران وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا عہدے کا حلف اٹھانے والے اعظم خان کو گزشتہ روز طبیعت کی ناسازی کے بعد اسپتال منتقل کیا گیا تھا تاہم وہ جانبر نہ ہو سکے اور خالق حقیقی سے جا ملے۔
اعظم خان کے اچانک وفات پا جانے کے بعد یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ اب نئے وزیر اعلیٰ کا تقرر کون کرے گا۔ سوشل پلیٹ فارم ایکس پر معروف صحافی نصرت جاوید نے لکھا، کے پی کے کے نگراں وزیر اعلیٰ کی اچانک موت واقعی ایک افسوسناک خبر ہے، خاص طور پر ان کے عزیز و اقارب کے لیے۔ لیکن یہ ایک انتہائی الجھا ہوا آئینی سوال بھی پیدا کرتا ہے، یعنی انتخابات کے انعقاد تک نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب کیسے کیا جائے۔
سماجی کارکن اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ فوزیہ یزدانی نے اس بحث میں حصہ ڈالتے ہوئے لکھا، آئین خاموش ہے۔
مثالی طور پر ای سی پی انچارج ہونے کے ناطے چارج سنبھال لے اور یا تو گورنر یا چیف جسٹس کو قائم مقام وزیراعلیٰ مقرر کرے۔
یا یہ مشورہ کے لیے سپریم کورٹ کے پاس جاتا ہے اور پھر بھی ای سی پی کے پاس واپس آجاتا ہے۔