(قیصر کھوکھر) بہترین حکمرانی کاخواب تو ہر حکمران دیکھتا ہے کہ اس کے جانے کے بعد اس کا نام یاد رکھا جائے لوگ آج بھی ان حکمرانوں کو یاد کرتے ہیں جن کے دور میں عوام کےلئے اچھے کام کئے گئے ۔ آج کے دور میں جنرل ضیاء، شہید ذوالفقار علی بھٹو، یحییٰ خان، ایوب خان کے ادوار کو لوگ ان کی اچھائیوں اور چند برے کاموں سے یاد کرتے ہیں۔ جنرل ضیاءکا دور تو آج کل خاص طور پر تنقید میں رہتا ہے جس کی وجہ سے مولویوں نے سر اٹھایا اور آج تک ہم ان سے بھگت رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کی تو انہوں نے بھی عوام سے ایک خاص نعرے پر ووٹ حاصل کر رکھے ہیں اور اب موجودہ حکمرانوں نے عوام سے ووٹ لینے کےلئے بڑے لالی پاپ دیئے اور تبدیلی کا نعرہ لگا کر عوام سے ووٹ تو حاصل کر لئے ہیں لیکن اب اس مینڈیٹ کو سنبھالنا اور اس مینڈیٹ کے مطابق عوام کو ریلیف دینا اور عوام کے روز مرہ کے مسائل کا حل کرنا ان کے لئے مشکل ہو رہا ہے۔
عمران خان کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ پنجاب میں ان کی حکومت ایک کمزور وکٹ پر کھیل رہی ہے۔ وزیر اعلی سردار عثمان بزدار اور کابینہ کو سمجھ ہی نہیں آ رہی ہے کہ کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے ابھی تک حکومت نیا بلدیاتی ایکٹ ہی تیار نہیں کر سکی ہے ۔ وزراءکو بیوروکریسی محکموں میں ان نہیں ہو نے دے رہی اور پنجاب کی کابینہ میں اکثریت ان ارکان کی ہے جو ماضی میں ق لیگ یا مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی میں شامل رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے وہ وزراءجو شروع دن سے پی ٹی آئی کے ساتھ رہے ہیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ خود وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار الیکشن سے ایک ماہ قبل پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔
اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب حکومت اس وقت مانگے تانگے افراد پر مشتمل ہے۔ مخلص اور پی ٹی آئی سے رقابت رکھنے والے ارکان کو جان بوجھ کر کھڈے لائن لگایا جا رہا ہے اور اب پی ٹی آئی کے حامی یہ کہہ رہے ہیں کہ معاملات درست سمت میں نہیں جا رہے اور عوام کےساتھ کئے گئے وعدے پورے نہیں ہو پا رہے اور پہلے سو دن کا خواب بھی ادھورا نظر آ رہا ہے۔ عمران خان کو اندرونی اور بیرونی ایشوز کا سامنا ہے۔ کبھی وہ ملک میں ہوتے ہیں اور کبھی مالی حالات کو کنٹرول کرنے کےلئے بیرون ملک ۔ ابھی تک حکومت کی رٹ درست سمت میں طے نہیں ہو سکی ۔ بہترین حکمرانی کا خواب پورا کرنے کے لئے جہاں سیاسی سوجھ بوجھ اور سیاسی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے وہاں بیوروکریسی کی مکمل حمایت بھی لازم ہے۔ کیا تھانہ کلچر تبدیل ہو گیا ہے؟۔ کیا تحصیل اور ٹائون کی سطح پر عوام کے مسائل حل ہو گئے ہیں ؟ ۔
عوام کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ ملک کو کتنا مالی اور اقتصادی نقصان ہو رہا ہے ۔ عوام کی سو فی صد توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ بجلی ملے اور سستی ملے ، گیس کا ٹیرف کم ہو، روزمرہ سبزیاں اور ضرور یات زندگی سستی ملےں ۔ہیلتھ اور ایجوکیشن سستی ہو ، روز گار کے وافر مواقع میسر ہوں اور ملک میں مکمل طور پر امن و امان ہواور عوام کی بنیادی ضروریات سستے داموں پوری ہو رہی ہوں۔ بلدیاتی نظام پرانا رہے یا نیا آ جائے عوام کو سکھ کا سانس اسی وقت ملے گا جب بجلی سستی ہوگی، نجی سکولوں کی فیسیں نارمل ریٹ پر آ جائیں گی اور بچوں کو مفت تعلیم ملے گی ۔ ابھی تک پنجاب حکومت مکمل طور پر سست روی کا شکار ہے ابھی یہ ہی تعین نہیں ہو سکا کہ پنجاب حکومت کون چلا رہا ہے اور کس کا حکم چل رہا ہے۔
پنجاب کے کسی تھانے میں جائیں تو کیا ایک عام اور سادہ لوح آدمی کو انصاف ملتا ہے کیا اسے ایس ایچ او اور تھانے کا عملہ خوش اخلاقی سے ملتا ہے اور صحیح سمت میں گائیڈ کرتا ہے یا کہ اس سے پیسوں کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے۔ تحصیل آفس ، اے سی آفس، یا واپڈا، سوئی گیس کے دفتر میں ایک عام صارف کو کیا بہترین سروس مل رہی ہے اورکیا عوام کی بجلی اور گیس سے متعلقہ شکایات کا بروقت ازالہ ہو رہا ہے ۔کیا محکمہ ایجوکیشن اور محکمہ ہیلتھ کے دفاتر میں تمام معاملات درست ہو گئے ہیں اور سکول و کالج ٹیچرز، پیرا میڈیکل سٹاف اور دیگر ہیلتھ افسران کے مسائل بھی حل ہوئے ہیں یا نہیں۔
سڑکوں اور بلڈنگ کی تعمیر میں کیا کمیشن مافیا نے توبہ کر لی ہے کہ نہیں۔ نہیں نہیں ایسا کچھ بھی ابھی تک نہیں ہو سکا ۔ پنجاب کی بیوروکریسی بھی ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھی ہے اور کوئی بھی محکمہ عوام کی فلاح اور بہتری کے لئے کوئی کام فی الحال نہیں کر پا رہا ہے ۔ پنجاب سول سیکرٹریٹ ایک نو گو ایریا بن چکا ہے اور افسران نے اپنے کمروں کے باہر دربان بٹھا رکھے ہیں جو کسی بھی سائل کو سیکرٹری یا ماتحت افسر کے کمرہ میں داخل نہیں ہونے دیتے ۔ ہسپتالوں اور سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔
تعلیم کے بعد اب ہیلتھ کا شعبہ بھی نجی سیکٹر کے پاس جا رہا ہے۔ عوام کو تعلیم اور صحت کی مفت سہولتیں فراہم کرنے کا خواب بھی پورا نہیں ہو رہا ۔کوئی بیوروکریٹ بھی فائل پر دستخط کرنے سے ڈرتا ہے۔ نیب سے تمام بیوروکریسی مکمل طور پر خوف زدہ ہے۔ ابھی تک موجودہ حکومت بیوروکریسی کے کردار کا تعین ہی نہیں کر سکی ہے۔ محکموں کے وزیر تو بنا دیئے گئے ہیں لیکن یہ وزراءابھی تک اپنے ذاتی کام کروانے میں مصروف عمل ہیں۔ بہترین حکمرانی کا خواب صرف اسی وقت پورا ہوگا جب عمران خان صاحب عوام سے الیکشن سے تبدیلی کے نام پر کئے گئے تمام وعدے پورے کریں گے۔