آزادیِ اظہار کے مجاہد فسانہ گر سعادت حسن منٹو  کا یوم پیدائش

11 May, 2024 | 07:47 PM

سٹی42 :   اُردو  ادب کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا آج 112 واں یوم پیدائش منایا جا رہا ہے لیکن ان کے مداحوں کے سوا کوئی انہیں یاد نہیں کر رہا۔

 سعادت حسن منٹو کا نام اردو ادب کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔  اردو زبان میں مختصر کہانیوں اور جدید افسانے کے منفرد اور مصنف سعادت حسن منٹو  11 مئی 1912ء کو پنجاب ہندوستان کے ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔  تقسیم ہند کے بعد وہ نقل مکانی کر کے لاہور آگئے، ان کا شمار  ان کے کام کی ابتدا سے ہی اردو کے نامور افسانہ نگاروں میں ہونے لگا تھا۔ ان کے کام پر بے پناہ تنقید کی گئی لیکن وہ ناقدوں کی طنز کے نشتروں سے گھائل ہونے کے باوجود اپنے الگ اسلوبِ بیاں سے دستبردار نہ ہوئے اور " ٹیبو"  سمجھے جانے والے موضوعات پر لکھتے ہی چلے گئے۔ ان کی چبھتی ہوئی تحریریں آج بھی بڑے ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

 سعادت حسن منٹو نے ممنوع سمجھے جانے والے  موضوعات پر  لکھ کر نہ صرف اپنے عہد میں سوئے ہوئے ضمیروں کو جھنجوڑا اور لوگوں خصوصاً نوجوانوں کو جدیدیت کی جانب مائل کیا بلکہ وہ  اردو ادب کیلئے ایک انمول سرمایہ بھی  پیدا کرگئے، معاشرے کو اس کی بے ہودگیاں، ناہمواریاں، منافقتیں اور بدنمائیاں دکھانے والے  اس  کہانی گر  کو ا پنی  فلسفیانہ سچائی کے بیان پر  جو تازیانے کھانے پڑے وہ ایک  افسوسناک داستان ہے۔

 منٹو ک کی تحریروں کا  ایک اہم موضوع تقسیمِ ہند سے  پہلے اور بعد میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی رہا، ان کے مختصر  افسانوں میں سے درجنوں مقبول ہوئے تاہم سیاہ حاشیے، لاؤڈ سپیکر، گنجے فرشتے اور نمرود کی خدائی بآج تک بار بار پڑھے جاتے ہیں۔

منٹو نے اپنی تحریروں کے سبب عدالت میں مقدمہ بازی کا سامنا بھی کیا۔ وہ اردو افسانہ کی مختصر تاریخ میں آزادیِ اظہار  سے دستبردار نہ ہونے کی پاداش میں مسلسل سماجی سزائیں بھگت کر ثابت قدم رہنے والے پہلے ادیب تھے۔ 

 اپنی عمرکے آخری 7 سال سعادت حسن منٹو  مال روڈ  لاہور پرواقع بلڈنگ دیال سنگھ مینشن میں مقیم رہے۔عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اپنی زندگی کا آخری حصہ لاہور میں ہی گزارا اور 18 جنوری 1955ء کو  صرف 43  سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ آج ان کی تحریروں کے حجم کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ کس قدر مختصر وقت میں کتنا کچھ لکھ گئے، زندگی نے منٹو کو کچھ سال مزید دیئے ہوتے تو شاید ان کا فن ارتقا کر کے انہیں چیخوف اور موپساں جیسے کہانی گروں کی صف تک لے جاتا۔ 

مزیدخبریں