ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

پاکستان تحریک انصاف کا تاریک مستقبل (قسط اول)

پاکستان تحریک انصاف کا تاریک مستقبل (قسط اول)
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

لکھتے ہوئے ہاتھ کانپ رہے ہیں لیکن نا لکھوں تو دل مطمئن نہیں ہوتا کہ حالت یہ ہے کہ دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے  اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے پاکستان تحریک انصاف اس ملک کے لاکھوں معصوم افراد کے لیے روشنی کی ایک کرن ملک میں عدل و انصاف کا محور اور اس ملک خداداد کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم تھی ماضی کے معروف کرکٹر عمران خان نے جب سے اس جماعت کی بنیاد رکھی اس وقت سے ہی یہ جماعت ایک ایسے ہیرو ازم کا شکار رہی جس نے اس سیاسی جماعت کو ایک فسطائی جماعت بنا دیا ، یہ سیاسی جماعت ایک گھنٹہ گھر کے گرد گھومنے لگی جس کا نام عمران خان ہے اسی جماعت کے عام کارکنان نے اس گھنٹہ گھر کے طواف کو اپنے ایمان کا حصہ بنایا اور یوں عمران خان ایک ایسے دیوتائی کردار کی شکل اختیار کرگئے جسے ان کے چاہنے والوں کے مطابق کبھی زوال نہیں آسکتا تھا ۔

 یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے سیاسی جگادری سیاستدان بھی اس جماعت میں شمولیت کے بعد یا تو اسی گروپ کا حصہ بن گئے جو طواف کرتی تھی ان میں  پرویز الہیٰ ، اور شاہ محمود قریشی جیسے سیاستدان بھی شامل تھے ان میں سے جس نے بھی اس دیوتا کو کچھ صحیع کہنا چاہا تو اسے راندہ درگاہ کردیا گیا سوشل میڈیا پر اس راہنما کی میمز بنائی گئیں خود عمران خان جلسوں اور خطابات میں اُن کے خلاف ایسی زبان اختیار کرتے جو روائتی سیاسی زبان نہیں بازاری زبان کہا جاسکتا ہے ، دراصل اُن کے چاہنے والے اپنے دیوتا کے سیاسی بیانات کو بھی خدائی احکامات (توبہ نعوز بااللہ ) نقل کفر کفر نا باشد  کا درجہ دیتے تھے ،عمران خان نے جسے چور کہا اسے بنا ثبوت چور مان لیا گیا اور جسے ڈاکو کہا اسے ڈاکو سمجھ لیا کسی نے پلٹ کر بھی یہ نہ پوچھا کہ آپ کے پاس اس کے کیا ثبوت ہیں ، اس کو یوں سمجھیں کہ چیئرمین عمران خان نے پرویز الہیٰ کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا تو سب نے مان لیا لیکن پھر اسی پرویز الہیٰ کو پنجاب کا بیتا اور ایماندار قرار دیا تو سب نے اس پر بھی چوں نا کی ، ایک وقت تھا کہ جب عمران خان ایم کیو ایم کو ملک دشمن جماعت قرار دیکر اس پر پابندی لگانے کے حق میں تھے پھر اسی ایم کیو ایم کو انہوں نے نفیس لوگوں کی جماعت قرار دے دیا تو سب نے اس کو بھی سر آنکھوں کو بٹھا لیا کسی بھی انسان کے لیے ایسا رتبہ کہ وہ جو کہے حق بن جائے اس کے دماغ کے خلل کے لیے کافی ہوجاتا ہے ۔

عمران خان اس رتبے پر پہنچنے والے پہلے انسان نہیں ہیں ایسے فرد جرمنی میں آیا تو ہٹلر بن گیا اٹلی میں اٹھا تو میسولینی کہلایا ،بھارت میں ظہور فرمایا تو مودی بن کے سامنے آیا ، دن کو رات اور رات کو دن کہنے کو جب لوگ سچ سمجھنے لگیں تو کسی بھی انسان کا اس بادشاہت کو ہمیشہ ہمیشہ رکھنے اور طول دینے کا فطری عمل کارفرما ہوجاتا ہے ، جس کے بعد کوئی بھی انسان خود کو خدا کا اوتار یا دیوتا سمجھ سکتا ہے اور کچھ ایسی ہی صورتحال پاکستان تحریک انصاف مین بھی کارفرما ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ ایک بچے کے گستاخانہ ریمارکس سے لیکر خاص اشعار کے ساتھ بنائے جانے والے ترانوں نے اس کو مزید ہوا دی ، یہ تصور کرلیا گیا کہ چیئرمین عمران خان دیو ملائی نوعیت کا کردار ہے اسے کبھی پکڑا نہیں جا سکتا اور اگر پکڑا گیا تو یہ اس کے چاہنے والوں کے لیے ریڈ لائن ہوگی جس کے بعد ملکی سالمیت ، حمیت ، اداروں کا تقدس سب کچھ ملیا میٹ کردیا جائے گا ایک سال قبل جب عمران خان کی حکومت کو آئینی انداز میں ہٹایا گیا تو اس کے بعد سے ذہن سازی کے عمل کا آغاز کیا گیا ، سوشل میڈیا پر ایسے ٹرینڈ بنائے گئے کہ جیسے ادارے اور سیاسی شخصیات صرف اور صرف ایک مقصد کے لیے کوشش کررہے ہیں اور وہ ہے خان صاحب کی جان لینا ان سارے خدشات کو ہوا دینے کے لیے عمران خان صاحب نے " ڈرٹی ہیری" (ہالی وڈ فلمی کردار )  کے نام کا استعمال کیا -

 فلمی دڑٹی ہیری ایک ایسا پولیس مین کا کردار ہے جو ظالم دشمنوں سے نبٹنے کے لیے آہنی ہاتھوں سے نبٹنا جانتا ہے مافیا اس کے نام سے ہی خوفزدہ رہتے ہیں ایسٹ کلنچ مین نے فلم میں شاندار کردار نبھایا جو کہ ایک مثبت کردار تھا لیکن جس انداز سے خان صاحب نے اسے پوٹرے کرنا شروع کیا اس سے اس کردار کی منفیت ابھر کر سامنے آئی ، آہستہ آہستہ تحریک انصاف کے لوگوں کو یہ باور کرایا گیا کہ یہ کردار عمران خان کی جان کے درپے ہے ، وہ لاگرز اور سوشل میڈیا ہینڈلرز نے اپنی اپنی پیمنٹ کے مطابق اس میں اپنا کردار ادا کیا اور یوں اُن معلوماتی گمراہ سادہ لوح افراد کو ایک خاص نقطے تک مرکوز کیا گیا اور وہ یہ تھا کہ خان کی جان کو خطرہ ہے ۔

عمران خان کی یہ پالیسی اُن کی ذات کے لیے تو فائدہ مند رہی اور وہ اس حیثیت کا لطف بھی اٹھاتے رہے اور پھر جیسا کہ وہ اس تصویر میں رنگ بھر رہے تھے انہوں نے اپنی گرفتاری سے دو روز قبل جب انہیں یقین تھا کہ اب وہ گرفتاری سے نہیں بچ سکتے تو میجر جنرل فیصل نصیر کو بنائی گئی تصویر میں فٹ کیا اور پیشی کے لیے اسلام آباد روانہ ہوگئے ۔

 اسلام آباد میں نیب کے ہاتھوں 9 مئی کو گرفتاری کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی اس میں عوام کے غم و غصہ کو ملکی سلامتی کے اداروں کی جانب موڑا گیا اور یوں وہ صورتحال پیدا ہوئی جس کے بعد کور کمانڈر ہاؤس یا سپر سٹور ، بنکوں کے اے ٹی ایم ہوں یا نجی املاک کچھ نہ بچا ، پی ٹی آئی کے لیڈران نے اس سارے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے مزید ہوا دی ایک کے بعد ایک شہر اس آگ میں جلنے لگا ۔(جاری ہے)