ویب ڈیسک : سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب نے توہین عدالت کی ہے ساتھ ہی انہیں ایک گھنٹے میں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ سماعت کررہا ہے۔سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ آئے تھے، وہ بائیو میٹرک کرارہے تھے جب رینجرز کمرے کا دروزاہ توڑ کر داخل ہوئی، انہوں نے عمران خان کے ساتھ بدسلوکی کی اور ان کو گرفتار کر لیا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیف الرحمان کیس میں احاطہ عدالت کے تقدس بارے حکم جاری کر چکے ہیں،80سے 100 رینجرز اہلکار جب ہائیکورٹ داخل ہوتے ہیں تو خوف کی فضا قائم ہوتی ہے۔
جسٹس عطرمن اللہ نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ انصاف کیلئے شہری عدالت داخل ہوجائے تو اسے گرفتار نہیں کیا جاسکتا، کیا نیب نے گرفتاری سے قبل رجسٹرار ہائیکورٹ سے اجازت لی تھی؟ جس پر پراسیکیوٹر جنرل نیب نے جواب دیا کہ نیب نے صرف وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور وزارت داخلہ کو خط لکھا، وزارت داخلہ نے نیب کے وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کرایا۔
نیب پراسیکیوٹر کے استفسار پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپکے مطابق گرفتاری وزارت داخلہ نے کی نیب نے نہیں۔ جس پر پراسیکیوٹر جنرل نیب نے جواب دیا کہ میں کیس کی تیاری نہیں کر سکا ڈپٹی پراسیکیوٹر عدالت کو مزید بتاسکتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ پراسیکیوٹر جنرل صاحب ایسے بیان سے آپ بات کو مزید پیچیدہ کر رہے ہیں۔ جبکہ اٹارنی جنرل نے بیان دیا کہ پراسیکیوٹر جنرل نیب کے بعد دلائل دوں گا۔
واضح رہےکہ سپریم کورٹ میں عمران خان کی گرفتاری کو گزشتہ روز چیلنج کیا گیا تھا جس میں پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہےکہ عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی ہے، ہائی کورٹ کا عمران خان کی گرفتاری قانونی قرار دینے کا حکم کالعدم قرار دیا جائے اور عمران خان کو عدالت کے سامنے پیش کرنےکا حکم دیا جائے۔
سماعت کے احوال:
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ احاطہ عدالت سے گرفتاری سے عدالت کا تقدس کہاں گیا، ریکارڈ کے مطابق جو مقدمہ مقرر تھا وہ شاید کوئی اور تھا، 90 افراد عدالت کے احاطے میں داخل ہوئے تو عدالت کی کیا عزت رہی؟ نیب نے عدالت کی توہین کی ہے، کوئی بھی شخص خود کو آئندہ عدالت میں محفوظ تصور نہیں کرے گا، کسی کو ہائیکورٹ، سپریم کورٹ یا احتساب عدالت سے گرفتار نہیں کیا جا سکتا، عمران خان کی گرفتاری سے عدالتی وقار مجروح کیا گیا, معاملہ عدلیہ کے احترام کا ہے, نیب نے ایک ملزم سپریم کورٹ کی پارکنگ سے گرفتار کیا تھا, عدالت نے گرفتاری واپس کروائی اور نیب کیخلاف کاروائی ہوئی, نیب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی آئندہ ایسی حرکت نہیں ہوگی, نیب کی اس یقین دہانی پر نیب افسران توہین عدالت سے بچے تھے, عمران خان کو کتنے لوگوں نے گرفتار کیا تھا. جس پر وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ 80 سے 100 لوگوں نے عمران خان کو گرفتار کیا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سو رینجرز عدالتی احاطے میں آئے تو عدلیہ کا احترام کہاں گیا،
دورانِ سماعت جسٹس عطرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ کے تقدس کا معاملہ بھی سپریم کورٹ دیکھے گی، انصاف تک رسائی کے حق کو ہم نے دیکھنا ہے، ہر شہری کو انصاف تک رسائی کا حق حاصل ہے، ہم یہاں صرف اصول و قواعد اور انصاف تک رسائی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں، سیاسی حالات کی وجہ سے ملک میں جو کچھ ہورہا ہے بہت افسوسناک ہے, نیب وارنٹ کا مسئلہ نہیں مسئلہ وارنٹ پر تعمیل کے طریقہ کار کا ہے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے عمران خان کو ایک گھنٹے میں عدالت پیش کرنے کا حکم جاری کر دیا۔