ویب ڈیسک: انسداددہشت گردی عدالت نے 17 جون 2014 کو ماڈل ٹاون لاہور میں طاہر القادری کے دفتر منہاج القرآن کے باہرفائرنگ کے واقعہ میں کئی افراد کی ہلاکت کے مقدمہ میں نامزد اس وقت کےانسپکٹر جنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر مشتاق احمد سکھیرا، ڈی آئی جی آپریشنز رانا عبدالجبار، ایس پی طارق عزیز کو الزامات سے بری کردیا۔ اس مقدمہ میں بریت کی درخواست دینے والے باقی پولیس اہلکاروں کی درخواست پرمزیدسماعت 19 مئی کو ہو گی۔ انسداد دہشت گردی عدالت نےٹی ایم او علی عباس کو بھی بری کر دیا۔ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج اعجاز بٹر نے جمعرات کی دوپہرمقدمہ کا فیصلہ سنایا.
سانحہ ماڈل ٹاون کے نام سے مشہور اس کیس نے پاکستان کی حالیہ تاریخ کو بری طرح متاثر کیا تھا اورایک طرح سے حالات کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا تھا۔ حالانکہ اسوقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اس واقعہ کی اطلاع ملتے ہی اسکی عدالتی تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا تھا لیکن منہاج القرآن کے سربراہ اور پاکستان عوامی تحریک کے لیڈرڈاکٹر طاہرالقادری نے 17 جون 2014 کو اپنے دفتر کے باہر پولیس اورراپنے کارکنوں کے درمیان تصادم کے واقعہ کو" لندن پلان" قرار دے دیا تھا اوراس وقت کے وزیر اعظم نواز شریفم وزیراعلیٰ شہباز شریف کو براہ راست اسواقعہ کا ذمہ دار قراردے ڈالا اور ان پرمقدمہ بھی درج کروادیا، ان کے ساتھ اس وقت پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنر ل مشتاق احمد سکھیرا, ڈی آئی جی آپریشنز لاہور راما عبدالجبار اور ایس پی طارق عزیز سمیت متعدد پولیس اہلکاروں کو اپنے کارکنوں کے منصوبہ بندی کے ساتھ قتل کے مقدمہ میں ملزم ٹھہرا دیا۔
طاہر القادری کے دباو پر اسوقت کےوزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو اس واقعہ کے مقدمہ سے ڈسچارج کئے جانے کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑا تھا۔ اس واقعہ کو بنیاد بنا کر طاہرالقادری نے احتجاج کا نہ خٹم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا۔ اگست 2014 میں انہوں نے لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا اورعمران خان کے لانگ مارچ سے ایک دن پہلے اسلام آباد میں آب پارہ چوک پرہزاروں ساتھیوں کےساتھ دھرنا دے کربیٹھ گئےتھے، کچھ روز بعد انہوں نے عمران خان کے ساتھ اشتراک کر کے آب پارہ چوک سے ڈی چوک جانے کااعلان کردیااورپولیس کی رکاوٹیں توڑ کرپارلیمنٹ کی بلڈنگ کے قریب ڈی چوک پر دھرنا دے کرکیمپ لگا لئے۔
31 اگست 2014 کوطاہرالقادری نے عمران خان کے ساتھ مل کرپہلے پاکستان کے ریاستی ٹیلی ویژن کی عمارت پرقبضہ کیا پھر پارلیمنٹ ہاوس اور وزیراعظم ہاوس پر بھی دھاوا بول دیا تھا۔ بعد ازاں طاہرالقاددری نے کسی وجہ کے بغیر یہ دھرنا ختم کردیا اور واپس کینیڈا چلے گئے جہاں وہ کئی سال سے مستقلا؍؍ مقیم ہیں۔
طاہرالقادری کے دباو پر اس واقعی کی عدالتی تحقیقات ہوئیں، ان کی مرضی کی ایف آئی آر درج ہوئی لیکن انہوں نے کبھی ان لوگوں کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کئے جن کو انہوں نے سازش میں ملوث قرار دیا تھا۔ طاہر القادری خود تو کینیڈاجا کر اس واقعہ کو بھول گئے لیکن ان کے مقدمہ میں پھنسائے ہوئے پولیس اہلکاروں کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مقدمہ سے رہائی حاصل کرنے میں کئی سال لگ گئے۔