سٹی42: اپنی سیاسی بقا کو یقینی بنانے کے لیے نیتن یاہو نے حماس کو بلا معاوضہ جنگ بندی دے دی۔ 11 دنوں سے حماس حملے کے خوف یا کسی ایک یرغمالی کو آزاد کرانے کے بغیر دوبارہ منظم ہونے کے لیے آزاد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب وزیر اعظم کے لیے بجٹ پاس کرنا ہی اہم ہے۔
انہوں (حماس) نے کچھ نہیں دیا، انہیں سب کچھ مل گیا۔
11 دنوں سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی جاری ہے جس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ یعنی حماس کو وہ چیز ملی جو اس کے لئے سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے – بحالی، تنظیمِ نو اور غزہ پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کے لئے درکار وقت- اس سب کے ساتھ ہی انسانی امداد کی امداد کی بے مثال آمد، بشمول قیمتی سامان – جب کہ اسرائیل کو بدلے میں کچھ نہیں ملا۔
اس عرصے میں ایک بھی یرغمال زندہ یا مردہ رہا نہیں کیا گیا۔ اور حماس کو یقینی طور پر غیر مسلح یا کمزور نہیں کیا جا سکا ہے۔ بالکل الٹ۔
حکومت کی طرف سے 17 جنوری کو جنگ بندی کے معاہدے کی منظوری دی گئی اور دو دن بعد یہ جنگ بندی عمل میں آئی جس میں یہ شرط عائد کی گئی تھی کہ پہلے مرحلے میں 33 یرغمالیوں کو 42 دن کی مدت میں رہا کیا جائے گا۔
کوئی اس بات پر بحث کر سکتا ہے کہ آیا بتدریج رہائی کا یہ طریقہ جائز تھا، کیا یرغمالیوں کو ایک ہی وقت میں رہا کروایا جا سکتا تھا – لیکن یہ ہی معاہدہ تھا، اور دونوں طرف سے وقفے وقفے سے رکاوٹوں اور خلاف ورزیوں کے باوجود، اسے انجام دیا گیا۔ فہرست میں شامل 33 یرغمالیوں - 25 زندہ، 8 مردہ - کو گھر لایا گیا۔
تاہم، معاہدے میں یہ بھی واضح طور پر کہا گیا ہے کہ فیز 2 کے لیے مذاکرات جنگ بندی کے شروع ہونے کے 16 دن بعد شروع ہوں گے - یعنی 4 فروری کو۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اور اس کے بعد سے ایسا نہیں ہوا۔ ۰اُس معاہدے کا فیز ٹو ایک مردہ حرف بن گیا ہے۔
وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے واضح کیا کہ وہ فیز 2 پر عمل درآمد کی شرط کے طور پر جنگ کے خاتمے پر رضامند نہیں ہوں گے، جب کہ حماس نے واضح کیا کہ وہ جنگ جاری رکھنے پر متفق نہیں ہوگی۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ نیتن یاہو کو اپنا راستہ مل گیا ہے تو وہ خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ حماس کو خالی ہاتھ چھوڑا گیا تو ، ایسا سوچنے والے کسی اور سیارے پر ہیں۔ اس تنظیم کو امریکی حکومت سے ملنے والی ریلگنیشن کو دیکھیں - 20 سالوں میں پہلی بار۔
نیتن یاہو، جس نے ایک سال سے زیادہ عرصے تک بار بار اصرار کیا کہ صرف فوجی دباؤ ہی یرغمالیوں کی رہائی کا باعث بنے گا، اب اس نے فوجی دباؤ کو ترک کر دیا ہے۔ نیتن یاہو تمام یرغمالیوں کو لڑائی کے ذریعے واپس نہیں لائے – اور اب وہ انہیں جنگ بندی کے تحت بھی واپس نہیں لا پا رہے ہیں۔
یہ وہی نیتن یاہو ہے جس نے 1999 میں یہ نعرہ لگایا تھا کہ "اگر وہ (حماس)دیتے ہیں تو انہیں کچھ ملے گا؛ اگر وہ نہیں دیتے تو انہیں بھی نہیں ملے گا۔"، اس کے باوجود اب حماس نے کچھ نہیں دیا اور سب کچھ حاصل کر لیا ہے۔
نیتن یاہو کے کاموں (ترجیحات) کی فہرست
ایلون اوہل کی سنگین بدقسمتی - اور 23 دیگر یرغمالیوں میں سے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہیں، اور غزہ میں اب 8 مارچ کو بھی یرغمال کی حیثیت سے رکھے گئے, تمام 59 یرغمالیوں کے خاندان کے سینکڑوں اور ہزاروں افراد اور دوست ہیں (ان سب کی شومئی قسمت کہ) درحقیقت فیز 2 (کا امکان) 31 مارچ کے قریب ہو سکے گا۔
نیتن یاہو کی دنیا میں، 31 مارچ ایک بہت زیادہ اہم تاریخ ہے۔
کیونکہ( اسرائیل کا) 2025 کا ریاستی بجٹ 31 مارچ تک پاس ہونا چاہیے، ورنہ کنیست خود بخود تحلیل ہو جائے گی، اور اسرائیل 100 دنوں کے اندر انتخابات کی طرف بڑھ جائے گا۔ اور یہ بجٹ پاس کرنے ( کروانے) کے لیے نیتن یاہو فیز 2 پر بات چیت نہیں کر سکتے، کیونکہ ان کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں نے وارننگ دی ہے کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں (فیز ٹو پر مذاکرات میں غزہ سے فوج نکالنا اور مسقتل جنگ بندی کرتے ہیں تو) تو نیتن یاہو کے اتحادی حکومت کو ہی گرا دیں گے۔
لیکن نیتن یاہو اس لئے بھی لڑائی دوبارہ شروع نہیں کر سکتے، کیونکہ امریکی کم از کم ایکIDF سپاہی ایڈن الیگزینڈر کی، حماس کی قید سے رہائی چاہتے ہیں، یہ سپاہی ایڈن الیگزینڈر امریکی شہریت (بھی) رکھتے ہیں۔
اس مہینے کے بقیہ حصے کے لیے نیتن یاہو کے کاموں کی فہرست میں: الٹرا آرتھوڈوکس کو خوش کرنے کے لیے IDF ڈرافٹ سے استثنیٰ کا قانون یا کوئی اور انتظام کرنا شامل ہے۔
بیزلل سموت خیچ Bezalel Smotrich کی انتہائی دائیں بازو کی مذہبی صیہونیت پارٹی کے ساتھ اپنا اتحاد برقرار رکھنا ہے اور اپنے ساتھی انتہائی دائیں بازو کے رہنما اِتما بن گویر Itamar Ben Gvir سے بجٹ کے لیے حمایت حاصل کرنا ہے، جس کی Otzma Yehudit Party اس وقت اپوزیشن میں بیٹھی ہے۔ نیتن یاہو کی "ٹو ڈو لسٹ" میں شاید یہاں تک کہ "فائر دی شن بیٹ چیف" (شین بیت ایجنسی کے سربراہ کو برطرف کرنا) یا "ہنگری میں اوربن کا دورہ کریں" یا "میرے مجرمانہ مقدمے کی گواہی میں زیادہ سے زیادہ تاخیر کریں" جیسے کام بھی شامل ہیں۔
لیکن اس فہرست میں کہیں بھی "یرغمالیوں کو گھر واپس پہنچانے" کا کام نہیں ہے۔ نہ ہی حماس کو تباہ کرنے کا کام ہے۔ اس مہینے ایسا نہیں ہوگا۔
یکم اپریل کو دوبارہ دیکھیں – جب نیتن یاہو بلا شبہ مکمل فتح یاب ہو کر، ہمارے پیارے یرغمالیوں، اور ہمارے وجود کی چٹان کے بارے میں کچھ عظیم الشان اعلانات جاری کریں گے۔
یکم اپریل، یقیناً، اپریل فول کا دن ہے۔
بیرینیت گورین کے مضمون کا ابتدائی حصہ
سابق یرغمال ایلی شریبی نے 10 دن پہلے چینل 12 پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں الانا دیان کو بتایا کہ "ہر منٹ جب ہم یہاں بیٹھ کر بات کرتے ہیں، ایلون (حماس کا یرغمالی) 50 میٹر زیر زمین (کسی سرنگ میں قید) ہے، خوفزدہ ہے، اسے اس بات کا یقین نہیں ہے کہ آیا اسے کبھی گھر لایا جائے گا۔" "اس کے بارے میں سوچیں کہ اسے ہر روز کیا برداشت کرنا پڑتا ہے، وہ کیا محسوس کرتا ہے - یہ جانتے ہوئے کہ دوسروں کے پیچھے رہ گیا تھا۔"
شریبی، جو 8 فروری کو، اپنے زندہ بچ جانے والے ساتھی یرغمالی اوہد بن امی اور اور لیوی کے ساتھ حماس کی قید سے چھوٹ کر اسرائیل واپس آیا تھا، لیوی، ایلیا کوہن اور ایلون اوہل کے ساتھ تقریباً 14 ماہ تک حماس کی سرنگوں میں قید رہا۔ کوہن کو شریبی اور لیوی کے دو ہفتے بعد 22 فروری کو رہا کیا گیا۔ تب سے ایلون اوہل حماس کی قید میں ہی ہیں۔ اکیلا۔
شریبی نے انٹرویو میں بتایا کہ کس طرح ان کے حماس کے اغوا کاروں نے چاروں یرغمالیوں کو جنگ بندی اور ان (یرغمالیوں) کے لیے اس کے نتائج سے آگاہ کیا۔ "ایک سینئر کمانڈر سرنگ میں آیا اور ہمیں بتایا، 'ایک ڈیل ہو گئی ہے،'" اس نے یاد کیا۔ "'ایلی شریبی، یا لیوی - آپ کو 8 فروری کو رہا کیا جا رہا ہے۔ ایلیا کوہن - آپ کو 1 مارچ کو رہا کیا جائے گا۔ اور ایلون اوہل - آپ دوسرے مرحلے میں ہوں گے، امید ہے کہ 8 مارچ کو'۔
"وہ گھبرا گیا۔ وہ سفید ہو گیا،" شریبی نے اوہیل کے بارے میںیاد کرتے ہوئے کہا۔ "اسے احساس ہوا کہ وہ پیچھے رہ جائے گا۔"
ایلون اوہل کے بارے میں سوچنا مشکل ہے کہ وہ 8 مارچ تک کے دن گن رہے ہیں۔ اور یہ جان کر کہ 8 مارچ آ گیا اور چلا گیا - مایوسی، غم اور غم کو دور کرنا ناممکن ہے – اور ایلون اوہل ابھی تک حما کی قید میں ہے۔ اکیلا۔
اسرائیل کی ویٹرن جرنلسٹ بیرینیت گوریِن کی یہ تحریر اور تصاویر دی ٹائمز آف اسرائیل سے شکریہ کے ساتھ لی گئیں۔ TOI میں یہ پیر 10 مارچ کو شائع ہوئی۔ اس تحریر میں بنیادی طور پر ان یرغمالیوں کے المیہ کو ڈسکس کیا گیا ہے جن کو حماس کی قید سے اپنی رہائی کے لئے ہوسٹیج ڈیل کے تھٹ ہونے والی جنگ بندی کی دوسری فیز کے آغاز کا انتظار ہے۔ بیرینیت گورِن کا تجزیہ یہ ہے کہ مارچ کے پورے مہینے کے دوران وزیراعظم نیتن یاہو یرغمالیوں کی واپسی کے لئے سیز فائر کی دوسری فیز کی طرف نہیں جا پائیں گے، اس دوران حماس کی قید میں ایلون اوہل(اور دوسرے23) تنہا کڑھتا اور تڑپتا رہے۔
بییرنیت گورین عبرانی نیوز پیپر زمان اسرائیل کی ایڈیٹر ہیں، یہ ٹائمز آف اسرائیل کی عبرانی زبان کی سِسٹر پبلیکیشن ہے۔