ویب ڈیسک: پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کا تجربہ رکھتے ہیں، کل آپ نے دیکھا ایک گھنٹے سے کم وقت میں ملک جام ہوگیا۔عمران خان سن لو ہم تم کو جام کرنا جانتے ہیں، آپ کی زبان بتارہی ہے آپ وزیراعظم کے منصب کے قابل نہیں۔
اسلام آباد میں شہباز شریف کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فضل الرحمان نے کہا کہ نہ ہم مسلح ہیں نہ جھڑپ چاہتے ہیں، ہمارے رضاکار پر امن ہیں۔عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہ ہوئی تو معاملات گلی کوچوں تک جائیں گے، ہم آپ کے خلاف جہاد لڑ رہے ہیں، مت سوچو کہ تم بچ جاؤ گے۔
سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک کے بعد عمران خان کیسے عوامی اجتماع میں جارہا ہے۔میں الیکشن کمیشن سےکہنا چاہتا ہوں کہ عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد وہ کیسے پبلک میں جارہا ہے، جب عدم اعتماد پیش ہوچکی ہے وہ کس طرح عوام میں جا رہا ہے، وہ کس طرح ڈی چوک پر لوگوں کو بلانے کی باتیں کر رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نےمزید کہا کہ ہم عدم اعتماد کی تحریک نہیں بلکہ آپ کے خلاف جہاد لڑرہے ہیں، پھر معاملات سڑکوں پر آئیں گے اور انارکی کی طرف جائیں گے، اگر میں نے بطور وزیر کوئی پرمٹ لیے ہیں اور کرپشن کی ہے تو آپ کے پی کے میں چار سال سے ہیں ، ہمت ہے تو ہمارے خلاف کوئی کرپشن کیس لے آئیں۔
جنرل باجوہ کی جانب سے عمران خان کو ڈیزل کہنے سے منع کرنے کے صحاف کے سوال پر فضل الرحمان نے کہا کہ مجھے ایسی کسی بات کا عمل نہیں، آپ جانتے ہیں میں کس سطح کی سیاست کرتا ہوں، میں ہمیشہ خیال رکھتا ہوں کہ اپنے کام سے کام رکھوں اور سول اور ملٹری بیورو کریسی کو الگ الگ رکھوں، دونوں ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ شرافت تو اس میں پہلے ہی نہیں تھی، پیدائشی طور پر شرافت سے محروم ہے، جانے کس معاشرے میں پلا بڑھا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے شرافت کا راستہ لیا ہے، تمہاری فطرت میں شرافت کا احترام نہیں ہے، گالیاں دیتے ہو، نام بگاڑتے ہو، بداخلاقی کرتے ہو۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عمران خان کی حکومت کے دن قریب آچکے ہیں، عمران خان کو وارننگ دے رہے ہیں کہ اپنی زبان ٹھیک کرلے۔
سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہمارے پاس اکثریت موجود ہے، سیاسی جنگ لڑو پوری دنیا کی اسمبلیوں میں ہوتا ہے، سیاسی جنگ لڑو، حواس باختہ کیوں ہوگئے ہو، گالیاں دینے پر کیوں آگئے ہو، خزاں جائے، بہار آئے نا آئے ، اصل چیز اس کا خاتمہ ہے۔