فریحہ بتول : مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لئے ، گھرانے کو سپورٹ کرنے کے لئے، اور پڑھ نہ سکنے کے سبب کم عمر میں مزدوری پر لگ گئے؛ چھوٹی عمر میں مزدوری کے جہنم میں دھکیلے گئے سبھی بچوں کی یہ ہی کہانی ہے۔ ایسے کم عمر مزدور لاہور میں دو چار ہزار نہیں لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ ان کم خوش قسمت بچوں کو نہ بچپن میں جسمانی اور ذہنی گروتھ کے لئے درکار خوراک، تعلیم اور محبت کافی ملتی ہے اور نہ ہی مشکل جسمانی مشقت کا معاوضہ ہی کافی ملتا ہے۔ چائلڈ لیبر کے خاتمہ کے بلند بانگ دعوے کرنے والے ادارے اور حکمران ہر گلی میں بر سرِ مشقت بچوں کو دیکھ کر ان دیکھا کر دیتے ہیں۔
پاکستان، دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں بچوں کی مزدوری ایک عام مسئلہ ہے تقریباً 12.5 ملین بچے، جن کی عمر 5 سے 14 سال کے درمیان ہے، مختلف قسم کی مزدوری میں مصروف ہیں۔ یہ تعداد دنیا بھر میں چائلڈ لیبر کے مجموعی تناسب کا تقریباً 7 فیصد بنتی ہے۔
شہر لاہور میں جگہ جگہ مکینک کی دوکانوں، ریسٹورنٹس، ہر طرح کی ورکشاپس، کارخانوں سے لے کر ہر قسم کی دوکانوں تک، چھوٹے بچے اپنے گھروں کو مہنگائی کے طوفانوں میں گزر بسر کرنے کے قابل بنائے رکھنے کے لیے محنت کرتے ہیں۔
بالغ مزدوروں کی طرح کم عمر مزدوروں کو بھی بارہ گھنٹے تک کام کرنا پڑتا ہے اور انہیں بالغ مزدوروں کے برابر کھانا بھی شاذ ہی ملتا ہے۔
ایک کمسن مزدور نے معصومیت کے ساتھ کہا کہ "ہم گھر کے حالات کی وجہ سے کام کرتے ہیں لیکن پڑھنا لکھنا بھی چاہتے ہیں، حکومت کو چاہئے کہ ہمارے لئے کچھ کرے"
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر چوتھا بچہ مزدوری کرنے پر مجبور ہے،،مزدوری کرنے والے بچوں کا کہنا تھا کہ گھریلو مسائل کی وجہ سے کام کرتے ہیں۔ سکول جانے کو دل کرتا ہے لیکن اتنے وسائل نہیں ہیں۔
چائلڈ لیبر کے پیچھے غربت، ناخواندگی اور سماجی عدم مساوات جیسے عوامل کار فرما ہیں۔ والدین کی کمزور معاشی حالت بچوں کو سکول بھیجنے کے بجائے کام پر بھیجنے پر مجبور کرتی ہے۔ ماہر قانوں دان سیدہ زہرہ بخاری نے اس صورتحال پر کہا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں جبری مشقت کے تدارک کے لیے اس طرح سے قوانین موجود نہیں۔ اگر ہیں بھی تو قوانین کا نفاذ اور نگرانی کمزور ہے۔ سماجی تنظیمیں اور بین الاقوامی ادارے بھی اس مسئلے پر کام کر رہے ہیں، لیکن اس کے حل کے لیے مزید مؤثر اور جامع پالیسیوں کی ضرورت ہے۔
چائلڈ لیبر کا خاتمہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم سب کی اجتماعی کوششوں کا متقاضی ہے۔ ہمیں شعور بیدار کرنا ہوگا، والدین کو تعلیم کی اہمیت بتانی ہوگی، اور معاشی استحکام کے لیے مؤثر منصوبے بنانے ہوں گے تاکہ بچے سکول جا سکیں اور ایک روشن مستقبل بنا سکیں۔