ویب ڈیسک : وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مثبت مذاکرات ہوئے ہیں ، پاکستان نے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا کیا ہےاگلے سال قرض ادائیگیوں میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا .
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے معاشی ٹیم کے ہمراہ مالی سال 2023-24 اقتصادی سروے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2022-23میں معیشت سکڑ گئی تھی، روپیہ 29 فیصد گر گیا تھا، زرمبادلہ کے ذخائر 2 ہفتے کے درآمدی بل کے برابر رہ گئے تھے،جب میں پرائیویٹ سیکٹر میں تھا تب ہی کہتا تھا کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہے، نو مہینے کا آئی ایم ایف پروگرام نہ ہوتا تو آج یہ ٹارگٹ سیٹ نہ کر رہے ہوتے ، آئی ایم ایف کا 9 مہینے کا قرض پروگرام اسٹارٹنگ پوائنٹ تھا۔ انہوں نے کہا کہ لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کی پیداوار میں مشکلات کا سامنا رہا ۔ زرعی شعبہ میں بمپر کراپس ہوئی ہیں۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ صوبوں نے اپنے اہداف حاصل کیے، جاری کھاتوں کے خسارے کا تخمینہ 6 ارب ڈالرز تھا، اس سال جاری کھاتوں کا خسارہ 200 ملین ڈالرز رہا ہے، اس سال کے تین مہینے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہے۔ رواں سال روپے کی قدر میں استحکام رہا۔ نگراں حکومت نے ہنڈی حوالہ کو روکا، نگراں دور میں اسمگلنگ اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر قابو پایا گیا، سٹے بازی کرنے والی ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف کارروائی کی گئی ، کوشش ہے سٹہ بازی دوبارہ اس ملک میں نہ ہو ۔ انہوں نے کہا کہ لوگ کہ رہے تھے ڈالر 350 کا ہوجائے گا، اسٹیٹ بینک کے اقدامات سے کرنسی مستحکم ہوئی۔ مہنگائی میں کمی کے باعث شرح سود میں کمی کی گئی۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے معاشی ٹیم کے ہمراہ بریفنگ دی، ان کی جاری کردہ اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال معشیت کے حجم میں 11 فیصد اضافہ ہوا ۔ جی ڈی پی گروتھ 2.38 فیصد رہی ، زراعت میں شرح نمود 6.25 فیصد رہی ۔
محمد اورنگزیب نے بتایا کہ گزشتہ مالی سال میں جی ڈی پی سکڑ گئی ۔ جی ڈی پی کی گروتھ میں مشکلات آئیں اس میں کوئی راکٹ سائنس نہیں ۔ مالی سال 2022-23 میں شرح نمو 2 فٰصد کم ہوئی تھی ، مالی سال 2022-23 میں روپے کی قدر میں 29 فیصد کمی ہوئی ، ان مسائل کے ساتھ ہم نے مالی سال 2023-24 کا آغاز کیا ہے ، جی ڈی پی گروتھ میں بڑی صنعتوں کی گروتھ اچھی نہ رہی ۔ انہوں نے کہا کہ 9 مہنے کا معاہدہ نہ کرتے تو ہم ٹارگٹ طے نہ کررہے ہوتے، اگر ہم آئی ایم ایف کے پاس نہ جاتے توصورتحال مختلف ہوتی ، جب سال شروع ہوا تو تخمینہ تھا 6 بلین ڈالڑ کا کرنٹ خسارہ ہوگا ۔
انہوں نے کہا کہ جو ٹیکس وصول ہوئے وہ بے مثال ہے ، صوبوں نے بھی ڈیلیور کیا ان کو بھی کریڈیٹ جاتا ہے ۔ بلند شرح سود اور مہنگی توانائی کے سسب لارج اسکیل مینو فیچکرنگ متاثر ہوئی۔ روان مالی سال ریونیو کلیکشن میں 13 فٰیصد اضافہ ہوا ، ہنڈی حوالہ اور سمگلنگ کو روکا گیا ۔ہم یقینی بنارہےہیں کہ ایکس چینج سائیڈ پر سٹے بازی ختم ہوجائے ، کرنٹ اکاونٹ خسارہ 50 کروڑ ڈالر تک محدود رکھنے میں کامیاب ہوئے ۔ گزشتہ سال ہم ڈیفالٹ کے دہانے پر تھے صرف دو ہفتے کی برآمدت کا زرہ مبادلہ رہ گیا تھا ۔ پالیسی ریٹ کو بتدریج نیچے آنا چاہیے ، معاشی استحکام آنے سے اعتماد بحال ہو رہا ہے۔
وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مثبت مذاکرات ہوئے ہیں ، پاکستان نے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا کیا ہے، پاکستان نے معاشی ڈسپلن کو فالو کیا ہے، یہ پاکستان کا پروگرام ہے ، آئی ایم ایف اس کی سپورٹ کر رہا ہے۔ توانائی کے شعبہ میں اصلاحات کرنا ہے، اسٹریٹجک سرکاری ادارے نہیں ہوسکتے ۔ پاسکو میں اصلاحات لا رہے ہیں۔ گندم کے ذخائر ضرور ہونے چاہئیں، لیکن یہ کام حکومت کے دائرہ کار میں نہیں ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے، ہر شخص کو پورا ٹیکس ادا کرنا پڑے گا ، ڈسکوز کے بورڈز کو تبدیل کیا جا سکے گا ، ڈسکوز کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کیا جائے گا ۔ اگلے سال قرض ادائیگیوں میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ، دوست ممالک سے قرضے رول اوور کرائیں گے، آئندہ مالی سال کے دوران پانڈا بانڈ جاری کیا جائے گا۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ بہت جلد اجناس سے متعلق پاسکو پالیسی کا اعلان کردیں گے۔ چین کے دورے کا مقصد سی پیک ٹو کو آگے بڑھانا تھا ، سیکورٹی کے متعلق نا خشگوار واقعات کا سی پیک پر اثر پڑتا ہے ۔ نیشنل اکناملک کمیٹی نے نگران حکومت کے کئی فیصلے ریورس کئے ۔ پالیسی پر عمل درآمد یقینی بنانے کے اصول پر آگے بڑھیں گے ۔ ہماری حکومت کا فوکس بزنس ٹو بزنس سرمایہ کاری ہے ۔ کیپسٹی چارجز پاکستان کی سارون کمٹمنٹس ہیں ،ان کا اخترام کرنا ہوگا ، کیپسٹی چارجز کا اژدھا بجلی کا استعمال بڑھا کر قابو کیا جاسکتا ہے ، بجلی کا استمعال بڑھے گا کو کیپسٹی چارجز کا بوجھ بھی کم ہوگا . نیپرا کی رپورٹ کے مطابق تمام ڈسکوز کے صارفین اوربلنگ کا شکار ہیں.
انہوں نے بتایا کہ زراعت ہماری معشیت کا سب سے بڑا ستون ہے ،زراعت اور آئی ٹی کا ائی ایم ایف سے کوئی تعلق نہیں ، سب ہمارے کنٹرول میں ہے ، گندم کے معاملات وزیر اعظم خود دیکھ رہے ہیں ، زرعی شعبے میں نصف حصہ ڈیری پروڈکشن اور لائیو اسٹاک کا ہے ۔