تحریر: اظہر تھراج
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شکست کا سایہ گرین شرٹس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا ۔پہلے امریکہ اور اب بھارت کے ہاتھوں چھ رنز کی شکست کے بعد پاکستان پھر ’اگر مگر‘ کی صورتحال سے دوچار ہوچکا ہے،پاکستان کی بھارت کےہاتھوں شکست کے بعد چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کا بھی سخت رد عمل سامنے آیا ہے ،محسن نقوی نے معنی خیز بیان بیان دیا جس سے ہر حلقے میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئی ہیں ،محسن نقوی نے کہا کہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ٹیم میں کیا چل رہا تھا اور ہارنے کی وجوہات کیا ہیں؟ قوم کرکٹ ٹیم سے ایسی مایوس کن کارکردگی کی توقع نہیں رکھتی تھی۔ سمجھتا تھا کہ چھوٹی سرجری سے کام چل جائے گا مگر اب بڑی سرجری کرنا پڑے گی۔ باہر بیٹھے ٹیلنٹ کو موقع دینا پڑے گا۔
اب بڑی سرجری سے مراد محسن نقوی کی یہ بھی ہوسکتی ہے کہ شاید وہ ٹیم میں کوئی بڑی تبدیلی کریں یا پھر مینجیمنٹ کی سطح پر کچھ بدلاؤ لایا جائے ۔بہرحال اب بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد بابر اعظم سارا ملبہ بیٹسمینوں پر ڈال رہے ہیں ۔اور ساتھ یہ بھی فرما رہے ہیں کہ ضرورت سے زیادہ ڈاٹ بال ہار کی وجہ بنی،بابر اعظم یہ بات بھول رہے ہیں کہ وہ بھی ایک بلے باز ہیں اور بھارت کیخلاف میچ میں وہ بھی دس گیندوں پر 13 رنز بنا کر پویلین واپس چلے گئے تھے۔اور رہی بات ڈاٹ بال کی تو آپ پریکٹس کس چیز کی کرتے ہیں ،پریکٹس اِس لیے کی جاتی ہے بلے بازی کو یا باؤلنگ اور فیلڈنگ کو بہتر کیا جاسکے لیکن پاکستان بیٹنگ میں بری طرح ناکام رہا ۔
محمد رضوان جن کے متعلق شائقین کرکٹ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے گیندوں کو ضائع کیا جس کی وجہ سے باقی بیٹسمینوں پر دباؤ پڑا۔محمد رضوان کی بھارت کیخلاف بلے بازی کا جائزہ لیں تو اُنہوں نے 44 بالز پر 31 رنز اسکور کیے ۔44 گیندوں پر محمد رضوان مزید اسکور بھی کرسکتے تھے لیکن وہ ناکام رہے۔پاکستان نے بھارت کیخلاف باؤلنگ کا آغاز اچھا کیا اور بھارت کو 119 رنز تک محدود کیا جو کہ ایک مناسب ٹارگٹ تھا جو پاکستان با آسانی حاصل کرسکتا تھا ۔لیکن پاکستان کی بیٹنگ نے مایوس کن پرفارمنس دی۔
اب ٹیم میں شاداب،افتخار احمد،اعظم خان،عماد وسیم کے ہونے کی وجہ سے اِن پر تنقید ہورہی ہے۔یہاں تک کہ بابر اعظم کی کارکردگی پر بھی سوال اُٹھایا جارہا ہے۔بابر اعظم کی بطور کپتانی کا جائزہ لیں تو اُنہوں نے 83 ٹی ٹوینٹی میچز میں کپتانی کی ہے ۔اِن کی قیادت میں پاکستان 46 میچ جیتا ہے اور 29 میچز میں پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔بطور کپتان بابر اعظم کی جیت کا تناسب 55.42 فیصد ہے ۔دیگر کھلاڑیوں کی مجموعی کارکردگی پر نظر دوڑائیں تو عماد وسیم نے 73 ٹی ٹوئنٹی میچز میں 550 رنز بنائے،اِن کی بیٹنگ ایوریج 16.17 رہی ،عماو وسیم کی باؤلنگ کی بات کریں تو 73 میچز میں اُنہوں نے 70 وکٹیں حاصل کیں ، اِسی طرح افتخار احمد نے 66 ٹی ٹوئنٹی میچز میں 998 رنز بنائے ،اِن کی بیٹنگ ایوریج 24.34 کی رہی ہے،اعظم خان نے 14 ٹی ٹوئنٹی میچز میں محض 88 رنز کیے ہیں اور اِن کی بیٹنگ ایوریج 8.80 کی ہے۔شاداب خان نے 102 ٹی ٹوئنٹی میں صرف 679 رنز بنائے اور اِن کی بیٹنگ ایوریج 23.46 کی ہے ۔یعنی شاداب اور عماد وسیم جن کو بھارت کے میچ میں ہیٹنگ کے طور پر لایا گیا اُن کی مجموعی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔
اعظم خان کے جثے کو دیکھ کر تو ایسے لگتا ہے جیسے پوری ٹیم کو انہوں نے سر پر اٹھا رکھا ہے مگر کارکردگی پر جائیں تو بہت مایوس کن ہے اور یہی وجہ ہے کہ ناقدین اِن کھلاڑیوں کوٹیم میں رکھنے کے حق میں نہیں ۔اب ایونٹ میں پاکستان نے ابھی کینیڈا اور آئیرلینڈ سے کھیلنا ہے ۔اور اگر پاکستان یہ دو میچ جیت جاتا ہے؟ اگر دونوں میچز جیت بھی گئے تو پھر بھی پاکستان کا سپر 8 مرحلے تک پہنچنا بہت مشکل ہے کیونکہ بھارت اور امریکا پہلے دو دو میچز جیت کر 4 پوائنٹ حاصل کرچکے ہیں ، اگر امریکا نے آئرلینڈ کو ہرا دیا تو پاکستان کیلئے ورلڈ کپ کا سفر ختم ہوسکتا ہے۔اور یہ بات درست لگتی ہے کیونکہ پاکستان کا مورال بھارت سے شکست کے بعد بہت ڈاؤن ہوچکا ہے اور شعیب اختر بھی یہی کہتے ہیں کہ میچ نے پوری قوم کا مورال ڈاؤن کر دیا ہے۔
سابق کپتان قومی کرکٹ ٹیم سلیم ملک بھی بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ دال میں کچھ کالا ہے،بھارت میں بیٹھے وسیم اکرم نے بھی پوری ٹیم کو آڑے ہاتھوں لیا ،کھلاڑیوں میں اعتماد کی کمی یا کسی کی کسی سے بدگمانی میں پی سی بی اور ان کے2 لوگوں کا اہم کردار ہے؟ٹیم اگر مگر کے چکر سے نکل کر اگلے مرحلے میں پہنچ جاتی اور اچھی دکھاتے ہوئے سیمی فائنل کھیل لیتی ہے تو پردہ نشینوں کے نام پردے میں رہ جائیں گے اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر بقول چیئرمین پی سی بی بڑی سرجری ضرور ہوگی ۔