انتظامیہ پر تنقید کی جائے لیکن غیر ضروری مداخلت نہ کی جائے، پنجاب اسمبلی کی قرارداد

11 Jun, 2024 | 03:33 AM

راؤدلشاد:  پنجاب اسمبلی میں عدلیہ کی مقننہ اور انتظامیہ میں غیر ضروری مداخلت نہ کرنے کے مطالبہ پر مبنی قرارداد منظور کر لی گئی۔ 

پنجاب اسمبلی میں ٹریژری بنچ کے رکن افتخار چاچڑ نے پیر کو ایوان میں اعلیٰ عدلیہ  کی جانب سے مقننہ اور انتظامیہ میں مداخلت پر قرارداد  پیش کی۔

پنجاب اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے افتخار چاچڑ نے کہا  کہ اعلیٰ عدلیہ نے کئی بار انتظامی امور میں مداخلت کی، ایوان کا مطالبہ ہے کہ انتظامیہ اور مقننہ میں مداخلت کو یکسر بند کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی ریاست کی طاقت کا انحصار اس کے اداروں کی مضبوطی پر ہوتا ہے،ریاست کے تین مضبوط آرگن ہیں مقننہ، ایگزیکٹو اور عدلیہ ہیں اور ان کے اپنے اپنے دائرہ کار  ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جوڈیشل ایکٹوازم نے کئی بار ریاستی معاملات میں مداخلت کی۔

اس قرارداد پر بحث کے دوران حکومتی بنچوں سے کئی ارکان نے عدلیہ کے بعض فیصلوں اور اقدامات کے متعلق  اظہار خیال کیا۔ 

یہ قرار داد اپوزیشن کی غیر موجودگی میں منظور کرلی گئی۔
 

قرارداد کا متن

قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا آئین ایک انتہائی مقدس دستاویز ہے جو 1973 میں پاکستان کی پارلیمان نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا،ریاستی ادارے جتنے مضبوط فعال اور قابل اعتماد ہوں گے، ریاست بھی اتنی طاقتور اور باوقار ہو گی۔

جب بھی مقننہ انتظامیہ اور عدلیہ کی حدود میں مداخلت کی تو ملک بحرانوں کاشکار ہوا، آئین کو بنےبرس بیت چکے مگر وطن عزیز میں آج بھی عملی طور پر یہ طے نہیں کیا جاسکا کہ مقننہ، انتظامیہ اورعدلیہ کو اپنے اپنے دائرہ کار میں کیسے سفر کرنا ہے۔

 قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی تاریخ کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ گزشتہ غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے محض کرداروں کی تبدیلی کےساتھ پچھلی غلطیاں دوبارہ دہرائی جاتی ہیں،انتظامیہ کی کمزوریوں پرضرور تنقید کی جائے لیکن اس کے اچھے کاموں کو سراہا بھی جانا چاہئے اور اس کے کاموں میں غیر ضروری مداخلت نہ کی جائے،انتظامیہ کے بارے میں معاشرے میں بھی منفی تاثر کوزیادہ پھیلایا گیا جس سے عوام کے دلوں میں اس کی ساکھ سوالیہ نشان رہی ہے۔

 قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل ایکٹوازم کی آڑ میں بار بار انتظامیہ کی آئینی حدود میں عدلیہ کی جانب سے مداخلت کی ایک تاریخ موجود ہے، 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 184 کابے دریغ استعمال ہوا اور ان گنت سوموٹو نوٹسز لئے گئے،این آر او عملدرآمد کیس میں سوئس حکام کوخط نہ لکھنے کے جرم میں ایک وزیر اعظم کو توہین عدالت کی سزا سنادی گئی اور وہ آرٹیکل 63 کے تحت پانچ سال کیلئے نااہل ہوگئے.

 عدالتي اختيارات کے انتظامیہ میں مداخلت کا خودعدلیہ کے معزز جج صاحبان نے اپنے فیصلوں میں کیا، ایوان کی یہ رائے بھی ہے کہ تمام اداروں اورستونوں کو اپنی اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرناچاہئے تاکہ پاکستان کو در پیش بحرانوں سے نکالا جاسکے۔

اس سے پہلے قرارداد پر بحث کے دوران رکن اسمبلی  راجہ شوکت بھٹی نے کہا  اس ملک میں تو چیف جسٹس  ثاقب نثار جیسے لوگ اختیارات سے تجاوز کرکے ڈیم فنڈ بھی اکٹھے کرتے رہے۔  ملک میں ایسا چیف جسٹس بھی آیا جس کو اپنی بیوی کے سامنے رو کر سپریم کورٹ میں صفائی پیش کرنی پڑی۔

 راجہ شوکت بھٹی نے کہا کہ  ذوالفقار علی بھٹو کو اس لیے لٹکایا کہ اس نے ملک کو ایٹمی طاقت دی اور نوازشریف کو اس لئے وزارت عظمی سے اتارا کیونکہ اس نے ایٹمی دھماکے کئے۔  بنی گالہ واحد گھر ہے جسے طلاق کے بعد گھر تحفہ میں ملا۔  

حکومتی رکن اسمبلی سلمیٰ بٹ نے  قرار داد پر گفتگو کرتے ہوئے کہا،  اورنج لائن منصوبہ کو  روکنے  والے سٹے آرڈر سے دس ارب روپے کا نقصان ہوا، پی کے ایل آئی منصوبہ کو چیف جسٹس ثاقب نثار نے روک دیا جو  تجاوز  تھا۔
سلمیٰ بٹ نے حالیہ مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ای بائیکس پر لاہور ہائی کورٹ اور سستی روٹی پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سٹے آرڈر دے دیا۔

 سلمیٰ بٹ نے کہا کہ مداخلت سیاسی شکل اختیار کر گئی ہے۔  عدلیہ کا کام انصاف کرنا ہے نہ کہ سیاست اور سیاسی اداروں میں مداخلت ۔ 

 سلمیٰ بٹ نے  کہا،  سپریم کورٹ کے جسٹس نے ایک کیس پر کہا کہ  پاپولر پارٹی کے سربراہ کو براہ راست دکھانے کےلئے بنیادی انسانی حقوق کی بنیاد پر ویڈیو کے ذریعے قیدی کی حاضری یقینی بنائی جائے۔ 
سائفر پر سزا ہونی چاہئیے تھی لیکن اقامہ پر تین بار کے وزیر اعظم کو گھسیٹ کر ایوان وزیر اعظم سے باہر نکالا گیا۔ 
عدالتوں کے جج  ایک پارٹی کے سربراہ کو گڈ ٹو سی یو اور دوسرے کو بلیک ڈکشنری کہیں گے تو  یہ انصاف کا فیصلہ نہیں ہوگا۔ 
ایک وزیر اعظم نے چٹھی نہیں لکھی تو اسے بھی اقتدار سے باہر نکال دیا گیا،  ایک شخص نے کہا جلاؤ گھیراؤ  کروں گا تو جج کہتا  امن کا پیغام نہیں ملے گا ۔ایک شخص ٹاؤٹ کہتا ہے تو اس پر توہین عدالت نہیں لگتی۔ 

ایوان کا کورم

قرارداد پر بحث کے دوران اجلاس کا کورم بھی ٹوٹا، کورم کی نشان دہی کئے جانے پر  پنجاب اسمبلی کا اجلاس کئی مرتبہ پانچ منٹ کے لیے ملتوی کیا گیا۔
اپوزیشن رکن کلیم اللہ نے کورم کی نشاندہی کی تھی۔ پینل آف چیئرمین سعید اکبر نوانی نے سیکریٹری اسمبلی کو گنتی کا حکم دیا
ایوان میں 93 ارکان موجود نہ  ہونے پر اجلاس پانچ منٹ کے لیے ملتوی کیاگیا۔ کورم کی نشان دہی کے وقت  ایوان میں موجودہ ارکان کی تعداد 83 تھی۔ 

 

مزیدخبریں