سٹی42 : لاہور میں ایک خاتون بچیوں کو بیوٹی پالر کا کام سکھانے کے لیے اپنے پاس بلاتی اور جب کوئی بچی اس کی باتوں میں آجاتی تو اس کو یہ اپنے اڈے پر بھیج دیتی اور ان کو اپنی کمائی کا ذریعہ بناتی ۔ایک ایسے ہی واقعہ سے ایک انٹرویو کے دوران بچی نے پردہ اٹھایا جو کہ اس کی باتوں میں آگئی اور پھر اس کے جال میں پھنستی چلی گئی۔
متاثرہ بچی کا کہنا تھا کہ میرے والد نے دوسری شادی کرلی تھی انہوں نے مجھے گھر کے ماحول سے محفوظ رکھنے کے لیے اس کے پاس بیوٹی پالر کا کام سیکھنے کے لیے بھیج دیا، اس ملزمہ نے لاہور سے مجھے فیصل آباد بھیجوا دیا وہاں میرے علاوہ 3 اور لڑکیاں تھیں، ہمیں تالے میں رکھا جاتا تھا موبائل استعمال کرنے کی اجازت نہ تھی، ہم سے غلط کام کروایا جاتا تھا،وہاں ایک لڑکا تھا جو ہمارے ساتھ باہر جاتا اور ہمیں اپنی مرضی سے باہر جانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔
لڑکی کا کہنا تھا کہ ہم سے جسم فروشی کا کام کروایا جاتا اور ہمیں اس کے بدلے مہینے کے 10 ہزار روپے دئیے جاتے تھے، اس نے کہا کہ ایک سال تک میں اس کے جال سے باہر نہ نکل سکی میں نے بہت کوشش کی۔ جب مجھے ایک سال بعد موقع ملا تو میں نے اپنے والد کو فون کر کے سب بتا دیا اور انہوں نے پولیس میں اطلاع کی اور پھر پولیس نے ہمیں وہاں سے آکر نکالا ۔
لڑکی کا کہنا تھا کہ ملزمہ خود لاہور رہتی تھی اور ہم فیصل آباد میں کومار نامی لڑکے کے ساتھ رہتے تھے۔ اس اڈے پر کبھی پولیس کا چھاپا نہیں پڑا۔ہم جیسی بچیوں کو ان جیسی عورتوں پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے۔
’مجرم کون ‘پروگرام کے میزبان عامر ڈار نے بچی کے والدین کا بھی انٹرویو کیا تو تو اس کے والد کا کہنا تھا کہ جب ہماری بچی اس کے پاس گئی ، کچھ عرصے بعد ہی ہمیں پتا لگ گیا تھا کہ اس نے بچی کو کہیں بھیج دیا ہے اور ہمارے اصرار پر اس نے وعدہ کیا کہ وہ ہمیں بچی دے دے گی۔ ہم عزت بچانے کے لیے پولیس کے پاس نہیں گئے یہ ایک سال تک ہمیں بس یہی کہتی رہی کہ وہ بچی کو واپس کردے گی،پھر ایک دن جب بچی نے رابطہ کیا تو ہم نے اپنی بچی کو بچانے کے لیے پولیس کو شکایت کی توپھر ہماری بچی کو رہائی ملی۔