( قیصر کھوکھر) گزشتہ پندرہ بر سوں میں پنجاب میں متعدد بڑے بڑے ناموں والے چیف سیکرٹری گزرے ہیں، ان میں سے چند سے اپنے کام لگن، وفاداری اور جونیئر اور سینئر کیساتھ بہتر سلوک اور بہتر ڈیلیوری کی وجہ سے نام کمایا اور آج بھی افسر شاہی انہیں اچھے نام سے یاد کرتی ہے، لیکن چند ایک ایسے بھی چیف سیکرٹری رہے ہیں جو صرف ڈنگ ٹپائو کام کیا اور ان کا نام بھی افسر شاہی کو بھول چکا ہے۔
سال 2008ء میں جب پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکمت بنی تو جاوید محمود کو چیف سیکرٹری پنجاب لگایا گیا۔ جاوید محمود نے بطور چیف سیکرٹری کمشنر نظام بحال کیا اور سول سیکرٹریٹ کی تاریخی حیثیت کو اصل حالت میں بحال کیا۔ جاوید محمود نے ڈی ایم جی ن کی بنیاد رکھی اور شہباز شریف کو ایک بیوروکریسی کی ٹیم بنا کر دی، جس میں فواد حسن فواد، سکندر سلطان راجہ، احد خان چیمہ، سجاد احمد بھٹہ، ندیم حسن آصف، ڈاکٹر توقیر شاہ، عبداللہ سنبل، ڈاکٹر احمد جاوید قاضی جیسے افسران شہباز شریف کو دیئے، جنہیں بعد ازاں ڈی ایم جی ن کا بھی نام دیا گیا۔ جاوید محمود نے اپنی مرضی سے ہائرنگ اینڈ فائرنگ کی اور جو بھی سول سیکرٹریٹ آتا ہے سیکرٹریٹ کو دیکھ کر اسے جاوید محمود یاد آ جاتا ہے۔
جاوید محمود کو ایک روڈ ایکسیڈنٹ کے واقعہ میں بغیر کسی جرم کے عہدہ سے ہٹا دیا گیا اور ناصر محمود کھوسہ کو چیف سیکرٹری پنجاب لگا دیا گیا۔ ناصر محمود کھوسہ نے بیورو کریسی میں ایک ٹھہرائو پیدا کیا اور میرٹ پر افسران کو تعینات کیا۔ ناصر محمود کھوسہ نے اے سی اور ڈی سی کی تعیناتی کا دورانیہ مکمل کرایا اور بیج وائز اے سی اور ڈی سی لگائے۔ ناصر محمود کھوسہ نے افسران پر ایوان وزیراعلیٰ کا اثرو رسوخ کم کیا، ناصر محمود کھوسہ دوسرے صوبوں کے افسران کو پنجاب سے بلوچستان اور ان کے آبائی صوبوں میں بھیجا اور دوسرے صوبوں سے پنجاب کا ڈومیسائل رکھنے والے افسران کو پنجاب لائے۔
جاوید اسلم مختصر عرصہ کیلئے چیف سیکرٹری پنجاب رہے لیکن ان کا پنجاب میں بطور چیف سیکرٹری دل نہ لگا اور انہوں نے اپنا تبادلہ بطور پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیراعظم کروا کر اسلام آباد چلے گئے۔ خضر حیات گوندل چیف سیکرٹری پنجاب لگے تو اس وقت بیورو کریسی کا مورال گر چکا تھا اور ایوان وزیراعلیٰ اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف بیورو کریسی پر مکمل حاوی تھے۔
خضر حیات گوندل بطور چیف سیکرٹری حمزہ شہباز کے اجلاسوں میں بھی چلے جاتے تھے جو کہ جاوید محمود اور ناصر محمود کھوسہ نہیں کیا کرتے تھے۔ نوید اکرم چیمہ چیف سیکرٹری پنجاب بنے تو انہوں نے حکومت کے صرف روز مرہ کے کام ہی نمٹائے اور بیورو کریسی یا عوام کے بہتری کیلئے کچھ نہ کیا۔ جاوید محمود نے تو قصور کیلئے بے شمار ترقیاتی کام کرائے لیکن نوید اکرم چیمہ اپنے شہر وزیر آباد کیلئے بھی کچھ نہ کر سکے۔ یوسف نسیم کھوکھر بھی مختصر عرصہ کیلئے چیف سیکرٹری پنجاب رہے۔
یوسف نسیم کھوکھر نے شروع شروع میں وزیراعلیٰ سردار عثمان احمد خان بزدار سے اپنے من پسند فیصلے کرائے۔ بعد ازاں وہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے سامنے لیٹ گئے اور بیورو کریسی کا ہر فیصلہ ایوان وزیراعلیٰ سے ہونے لگا۔ یوسف نسیم کھوکھر کے بعد میجر (ر) اعظم سلیمان خان چیف سیکرٹری پنجاب لگے۔
انہیں وزیراعظم نے بیورو کریسی کے معاملات میں فری ہینڈ دیا گیا، جس پر انہوں نے کئی برسوں بعد چیف سیکرٹری آفس کا تقدس بحال کیا اور گریڈ اکیس تک کے افسران کے تقرر و تبادلے خود کئے اور حتی کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے رشتہ دار افسران کو بھی تبدیل کر دیا گیا۔ انہوں نے جاوید محمود اور ناصر محمود کھوسہ کے بعد پہلی بار میرٹ پر افسران کو تعینات کیا۔
ان کی وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے بن نہ سکی جس پر انہیں تبدیل کر دیا گیا۔ موجودہ چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک ایک دیانتدار، نمازی اور تہجد گزار افسر ہیں۔ یہ موجودہ حکومت کا فیس ہیں، ان پر کرپشن یا کوئی اور الزام نہیں، البتہ ان پر ایک الزام ضرور ہے کہ انہوں نے افسران کے تقرر و تبادلوں میں ایوان وزیراعلیٰ کو کھلی چھٹی دے دی ہے۔
جواد رفیق ملک کو چاہئے کہ ایوان وزیراعلیٰ کے فیصلوں کے سامنے مزاحمت کریں اور وزیراعلیٰ کو قائل کریں کہ میرٹ پر تعیناتیاں کی جائیں اور کرپٹ افسران کا گھیرائو کیا جائے اور انہیں ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے