(قیصر کھوکھر) پنجاب کی بیوروکریسی میں رسہ کشی اور"لیگ پولنگ" عروج پر، کوئی بھی افسر ایک جگہ ٹِک کر کام کر نہیں کر سکتا، اسی رسہ کشی کے باعث بیوروکریسی کے تقررو تبادلوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔
پنجاب کی بیوروکریسی میں اس وقت کئی گروپ کام کر رہے ہیں، میجر(ر) اعظم سلیمان خان گروپ، جواد رفیق ملک گروپ، طاہر خورشید گروپ، روحانی گروپ اور ڈی ایم جی نون گروپ اس وقت فعال ہیں، مذکورہ گروپس آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہتے ہیں اور وزیر اعلیٰ کو ایک دوسرے کی شکایتیں بھی لگاتے رہتے ہیں۔
جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے پنجاب میں چوتھا چیف سیکرٹری تعینات ہو چکا ہے، پنجاب میں حکومت نےمحدود مدت میں چار آئی جی تبدیل کیے، کلیم امام نگران حکومت میں آئی جی تعینات ہوئے، ان کے ایک ماہ بعد محمد طاہر، پھر انہیں ہٹا کرامجد جاوید سلیمی اور ان کے کچھ ہی عرصہ بعد عارف نواز کو آئی جی تعینات کیا گیا، انہیں بھی چند ماہ بعد ہی ہٹا کر شعیب دستگیر کو تعینات کردیا گیا لیکن اب بھی آئے روز چیف سیکرٹری اور آئی جی کے تبادلوں کی افواہیں سنائی دیتی ہیں۔ محکمہ ہائر ایجوکیشن ، محکمہ لائیوسٹاک، بلدیات، محکمہ سروسز، محکمہ فوڈ، محکمہ آبپاشی اور پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیر اعلیٰ بار بار تبدیل ہو رہے ہیں۔
پنجاب میں اس وقت غیر یقینی کی صورتحال ہے اور کسی افسر کو کوئی پتہ نہیں کہ کب اور کیسے وہ بیوروکریسی کی اندورنی سیاست کا شکار ہو جائے۔
دوسری جانب پنجاب کابینہ میں تبدیلی کی آوازیں پھرسر اٹھانے لگی ہیں، چار وزراء کے سر پر خطرے کی تلوار لٹکنے لگی، دو وزراء کے قلمدان تبدیل اور دو وزراء سے قلمدان واپس لیے جا سکتے ہیں، جن میں صوبائی وزیر سکولز ایجوکیشن ڈاکٹر مراد راس، صوبائی وزیرسپورٹس تیمور بھٹی، صوبائی وزیراقلیتی اعجاز عالم آگسٹن اور صوبائی وزیر سی ایم آئی ٹی اجمل چیمہ شامل ہیں۔