سٹی42: امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا میں وائلڈ فائر نے لاس اینجلس شہر میں گھس کر چھ ہزار سے زیادہ گھروں کو خاکستر کر دیا اور ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا نقصان کر دیا۔ اس عظیم المیہ پر امریکہ کے نومبر 2024 کے صدارتی الیکشن میں آمنے سامنے آنے والے امیدواروں کا ایک دوسرے کے متضاد رویہ سامنے آیا ہے۔ ایک کو برباد ہو چکے خاندانوں کی فکر ہے اور دوسرے کو مصیبت زدہ ریاست کے گورنر کا استعفا چاہئے۔
نومبر 2024 کا صدارتی الیکشن ہار جانے والی کمیلا ہیرس کو 20 جنوری تک امریکہ کی نائب صدر ہیں، انہوں نے ساری توجہ کیلی فورنیا ریاست کی آگ سے جنم لینے والے انسانی المیہ پر مرکوز کی، وائٹ ہاؤس نے لاس اینجلس کے ہزاروں گھر جل جانے کے بعد اس پورے علاقہ کے لوگوں کو آئندہ چھ ماہ تک اخراجات دینے کی بات کی، فائر فائٹرز اور امدادی کارکنوں کی تنخواہوں کے لئے وسائل مہیا کئے اور بحالی کے لئے درکار وسائل فراہم کرنے کا اعلان کیا۔
وائٹ ہاؤس میں بریفنگ کے دوران نائب صدر کمیلا ہیرس لاس اینجلس کے ان خاندانوں کی بات کرتی ہیں جو آگ میں اپنے گھر اور ذریعہ معاش دونوں کھو چکے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم "بڑے پیمانے پر تباہی" کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ تباہی "کئی نسلوں پر مشتمل ہے اور کافی عرصے تک جاری رہے گی۔"
وہ مزید کہتی ہیں، "ایسے لمحات ہیں جہاں ہمیں لوگوں کی بہادری میں رجائیت حاصل کرنی چاہیے۔"
خاتون ڈیموکریٹ لیڈر کے رویہ کے برعکس نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کوئی معقول وجہ بتائے بغیر کیلیفورنیا کے گورنر کے استعفے کا مطالبہ کر دیا جو کبھی نہیں مانا جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے یہ ہی کافی تھا کہ کیلی فورنیا کا گورنر ان کا آدمی نہیں ہے۔ انہوں نے ہواؤں سے پھیلنے والی آگ کی قدرتی آفت کو گورنر کی نا اہلی قرار دیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ گورنر کو کیا کرنا چاہئے تھا کہ ہواؤں سے تیس ہزار ایکڑ پر جنگل میں لاکھوں درختوں کی لکڑی سے دہکی ہوئی آگ کے بے قابو شعلے لاس اینجلس شہر کی طرف نہ آتے اور ہزاروں گھر جل کر کوئلہ ہونے سے بچ جاتے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کیلی فورنیا کے گورنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کے خوبصورت ترین علاقوں میں سے ایک جل کر راکھ ہوگیا۔ لاس اینجلس آگ کے زمے دار ڈیموکریٹ گورنر ہیں، لاس اینجلس راکھ بن گیا، تین دن میں آگ پر قابو نہیں پایا جا سکا، گورنر اور میئر دونوں نا اہل ہیں۔
ایک طرف دس دن بعد صدر بننے والے ٹرمپ نے گورنر کے استعفے کے سوا کوئی بات نہین کی ، دوسری جانب دس دن کے مہمان صدر جو بائیڈن نےرجائیت کے ساتھ برباد شد لاس اینجلس کی بحالی کا تصور پیش کیا، انہوں نے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے آگ لگنے سے ہونے والی تباہی پر اگلے چھ ماہ تک 100 فیصد اخراجات اٹھانے کا اعلان کیا۔
آتش زدگی پر بریفینگ کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ فنڈنگ کی رقم سے متاثرہ علاقے سے ملبہ ہٹایا جائے گا، عارضی پناہ گاہیں قائم کی جائیں گیا اور ریسکیو ورکرز کو تنخواہوں کی ادائیگی کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ تعمیراتی کام کے لیے اضافی فنڈز کی ضرورت پڑے گی، اس کے لئے وہ کانگریس سے اپیل کریں گے۔
واضح رہے کہ امریکا کے تاریخی شہر میں منگل سے لگی آگ کے متعلق واضح ہے کہ یہ خطرناک ہواؤں کے بہت خطرناک رخ کی وجہ سے راتوں رات پھیلی اور جنگل کے لاکھوں درخت اس کا ایندھن بن کر اس کے ناقابلِ مزاحمت عفریت بن جانے کا سبب بنے۔ تاریخ کی اس بدترین آگ سے 6 ہزار گھر اور عمارتیں جل کر راکھ ہو گئیں جبکہ 32 ہزار سے زائد ایکڑ رقبے پر وادیاں اجڑ گئیں۔
آگ کی وجہ سے ڈیڑھ لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔
امریکی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہوا نہ رکی تو یہ قدرتی سانحات میں امریکی تاریخ کا بدترین واقعہ بن جائےگا۔