رام جی کو گوشت کھاتے کیوں دکھایا، زی انٹرٹینمنٹ کی فلم نیٹ فلیکس سے ہٹ گئی

11 Jan, 2024 | 10:43 PM

سٹی42: بھارت میں کٹر ہندو اور ہندوتوا کے پجاری ایک نوجوان شیف لڑکی کی زندگی کی کہانی پر مبنی فلم میں برہمن زادی کو گوشت کی ڈشیں بناتے دیکھ کر برہم ہو گئے، اتنا اودھم مچایا کہ نیٹ فلیکس کو اپنی ویب سائٹ سےمقبول فلم  "اناپورانی: دی گاڈس آف فوڈ" کو ہٹانا پڑ گیا۔ 

دائیں بازو کے گروپوں کے اس دعوے کے بعد کہ اس فلم نے ہندو برادری خصوصاً برہمنوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے، کے احتجاج کے بعد، نینتھارا-اسٹارر اناپورانی کو جمعرات کو فلم کے پروڈیوسرز زی انٹرٹینمنٹ کی درخواست پر نیٹ فلکس پلیٹ فارم سے ہٹا لیا گیا۔

اناپورانی کی اداکارہ پر مقدمہ
بدھ کے روز  بعض کٹر ہندؤں کی درخواست پر  جبل پور پولیس نے نینتھارا،  اس فلم سے ہدایتکاری کا آغاز کرنے والے ڈائریکٹر نیلیش کرشنا اور فلم کے مصنف اور پروڈیوسروں کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 153A (آبادی کے مختلف حصوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) اور 3A کے تحت ایف آئی آر درج کر لی۔

تامل زبان مین بنائی گئی یہ خوبصورت سوشل فلم ایک مندر کے باورچی کی بیٹی کی کہانی بیان کرتی ہے جو ملک کا بہترین شیف بننے کا خواب دیکھتی ہے اور مکمل شیف بننے کے لئے کوکنگ سکول کی ہدایات کی پیروی کرتے ہوئے  اپنے خاندان کی خواہش کے خلاف نان ویجیٹیرین کھانا بنانا سیکھتی ہے۔

فلم کے شریک پروڈیوسر زی انٹرٹینمنٹ نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی ذیلی تنظیم وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) سے تحریری معافی مانگتے ہوئے کہا کہ اس کا کبھی بھی کمیونٹی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا ارادہ نہیں تھا۔ اب زی انٹرٹینمنٹ کا کہنا ہے کہ یہ  فلم اس وقت تک دوبارہ ریلیز نہیں کی جائے گی جب تک اس میں ترمیم نہیں کی جاتی۔


فلم نیٹ فلیکس سے ہٹ جانے سےہندوؤں کی جیت ہوئی: وی ایچ پی کا ردعمل
یہ فلم، جو 1 دسمبر کو سینما گھروں میں ریلیز ہوئی تھی، سنسر بورڈ کے چنئی کے علاقائی دفتر سے منظوری کے بعد 29 دسمبر سے یہ فلم  Netflix پر  بھی کئی زبانوں میں نشر ہو رہی ہے۔ Netflix نے اب تمام زبانوں اور ہندوستان سے باہر تمام ممالک میںبھی اس  فلم کو ہٹا دیا ہے، حالانکہ یہ فلم کا ہندی ورژن تھا جس نے ہندو  مذہب کے پیروکاروں کےایک حصے میں غصے کو جنم دیا تھا۔

وی ایچ پی کے ترجمان ونود بنسل نے سوشل پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں اسٹریمر  نیٹ فلیکس کے فیصلے کو 'ہندوؤں کی فتح' قرار دیتے ہوئے سراہا ہے۔ ونود بنسل نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا، "وی ایچ پی کی شکایت پر، زی اسٹوڈیو نے اب معافی مانگ لی ہے۔ وقت پر جاگنا ضروری ہے اور ہندوؤں کے عقیدے پر حملوں کو روکنا ہماری مجبوری ہے،‘‘ 

زی انٹرٹینمنٹ کے خط میں کہا گیا ہے کہ پروڈیوسر نے وی ایچ پی کے ان الزامات کا نوٹس لیا ہے کہ فلم میں ایسے مناظر، الفاظ اور مکالمے ہیں جو بھگوان رام جی سے جھوٹے اور متضاد بیانات کو منسوب کرتے ہیں، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے 14 سال کی جلاوطنی کے دوران جانوروں کا گوشت کھایا تھا۔


سماجی بدامنی کا امکان
ندوتوا کی سرگرم پرچارک وشوا ہندو پریشد کے ممبئی یونٹ نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ گوشت کھاتے ہوئے رام کی اس تصویر نے نہ صرف لاکھوں لوگوں کےعقائد کی توہین کی، بلکہ ہندو مذہب کی قابل احترام شخصیات کے بارے میں بھی غلط معلومات پھیلائی ہیں۔ وی ایچ پی نے کہا کہ "اس طرح کا مواد نہ صرف سماجی بدامنی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ یہ سماج کے ایک اہم طبقے کے جذبات کے متعلق حساسیت کی کمی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔"

نیٹ فلیکس سنسرشپ کے آگے جھک گیا
ویشوا ہندو پریشد کی تنقیدی مہم کے جواب میں زی انٹرٹینمنٹ نے کہا کہ وہ اپنے شریک پروڈیوسر  کےساتھ ہ مل کر وی ایچ پی کی فلم کے متعلق شکایات دور کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔جب تک اس میں ترمیم نہیں کی جاتی ہم فلم کو نیٹ فلیکس پر واپس نہیں لائیں گے۔ "ہمارا فلم کے شریک پروڈیوسر کے طور پر ہندوؤں اور برہمن برادری کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں اور ہم متعلقہ برادریوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور ہونے والی تکلیف کے لیے معذرت خواہ ہیں۔"

ہندو لڑکی کا مسلمان لڑکے سے پیار

 "اناپورانی: دی گاڈس آف فوڈ" کے متعلق وی ایچ پی کو صرف یہ ہی شکایت نہین کہ اس میں رام جی کو ماس کھاتے دکھایا گیا بلکہ اسے یہ بھی تکلیف ہے کہ فلم میں برہم زادی کسی مسلمان کلاس فیلو کے ساتھ پریم کی پینگیں کیونکر چڑھا سکتی ہے۔ 

یہ فلم، جو  نیٹ فلیکس سے ہٹائے جانے سے ایک دن پہلے بھارت میں نیٹ فلکس کی دوسری سب سے زیادہ دیکھی جانے والی فلم تھی،اس کا مرکزی کردار ایک برہمن پجاری کی بیٹی ہے  جو ملک کی سب سے بڑی شیف بننے کی خواہش رکھتی ہے۔  کوکنگ سیکھنے کےعمل میں وہ اپنی  سبزی پرستی کو ترک کر دیتی ہے ۔ ایک مسلمان ہم جماعت کھانا پکانے والے اسکول کے چیلنجوں کو پورا کرنےمیں اس کی مدد کرتی ہے اور  دونوں کلاس فیلو  آخرکار محبت  کے رشتے میں بندھ جاتے ہیں، ایسی محبت جسے آج کل بھارت کے ہندوتوا تشدد سے دوچار معاشرہ میں انتہا پسند گروہ کفر سے بھی بڑا جرم بنا کر پیش کرتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے پولیس میں اس فلم کے حوالے سے رمیش سولنکی نامی ایک شہری کی طرف سے  جو شکایت درج کرائی گئی اس میں الزام لگایا گیا کہ فلم نے "جہاد بذریعہ محبت" کو فروغ دیا ہے - یہ  توہین آمیز اصطلاح ہندوتوا کے پرچارک عموماً  مسلمان مردوں اور ہندو خواتین سکی شادیاں روکنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایسی محبتیں ہندو لڑکیوں کو ان کا مذہب چھڑوا کر مسلمان کرنے کے لئے کی جاتی ہیں۔  

بازو مروڑ کر ہندوتوا کی جیت

اناپورانی کو  پروڈیوسرز کا بازو مروڑ کر نیٹ فلیکس سے ہٹائے جانے پر ہندو توا کے ایک پرچارک گروہ کے ترجمان راج نائر نے سوشل پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ فلم بنانے والوں کو "اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے"۔ "ہم نے کبھی کسی فلم کی تخلیقی آزادی میں مداخلت نہیں کی لیکن ہندوؤں کو مارنے اور تمسخر کو کبھی بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔"

ایک بین الاقوامی صحافتی ادارہ نے اس صورتحال پر  لکھا کہ ہندوستان میں فلم سنسر شپ کی تاریخ طویل ہے، لیکن 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے انڈسٹری نے ایسے مواد سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے جو ملک کے اکثریتی عقیدے  کو ٹھیس پہنچا سکتا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ نے بھی دسمبر میں اطلاع دی تھی کہ Netflix اور ڈیجیٹل تفریحی پلیٹ فارم ایمیزون پرائم نے سرکاری طور پر سیکولر ہونے کے دعویدار ملک میں "ہندو جذبات" کو مجروح کرنے کے خوف سے  کئی پروجیکٹ روک دیئے ہیں۔

مزیدخبریں