سٹی42: پاکستان پیپلز پارٹی کے پالیسی ساز اور فیصلہ ساز فورم سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس اسلام آباد میں ہونے والا ہے۔ عام انتخابات کے عمل، انتخابات کے بعد کی صورتحال، ملک بھر میں حکومت سازی اور مستقبل میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ترجیحات کا تعین پارٹی کے سینئیر ترین رہنماؤں پر مشتمل اس فورم پر مشاورت سے کیا جائے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے ذمہ دار ذرائع کے مطابق انتخابات کے نتائج، قومی اسمبلی اور پنجاب میں سپلٹ مینڈیٹ سے پیدا ہونے والی صورتحال، نئی صورتحال میں پاکستان پیپلز پارٹی کی پوزیشن اور اس پوزیشن سے جنم لینے والے نئے امکانات کے متعلق پارٹی کی قیادت تفصیلی مشاورت کرے گی۔
سی ای سی کے سامنے 8 فروری کے انتخابی نتائج میں تاخیر کے عوامل، پارٹی کے شریک چئیرمین صدر آصف علی زرداری کی رابطہ کاری سے لے کر مسلم لیگ نون کی جانب سے موصول ہونے والی پیشکش اور پارٹی قیادت کے نئی صورتحال میں اب تک ہونے والے تمام رابطوں کو سی ای سی کے اجلاس میں ڈسکس کیا جائے گا۔
پارٹی ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کی سینئیر قیادت 8 فروری کے بعد کی صورتحال پر سی ای سی کی رسمی میٹنگ سے پہلے بھی رابطہ میں رہی ہے، ملک کو پیپلز پارٹی اور دوسری بڑی سیاسی جماعتوں کے درماین اشتراک کی ضرورت ہے اور اس امر پر عمومی انڈرسٹینڈنگ موجود ہے کہ پیپلز پارٹی وفاق میں کوالیشن گورنمنٹ میں جائے گی تاہم اس کی موڈیلیٹیز اور پیپلز پارٹی کے لئے گنجائش سمیت کئی بنیادی سوالات پر تفصیلی غور و خوض سی ای سی کے اجلاس میں کیا جائے گا۔
پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بظاہر س بات کا امکان ہے کہ پیپلز پارٹی کی سینئیر قیادت نمائشی عہدوں سے زیادہ مستقبل میں ملک میں پارٹی کے لئے سپیس اور پارٹی کے منشور پر عملدرآمد میں دلچسپی رکھتی ہے۔ سی ای سی کی مشاورت میں کسی سٹیریو ٹائپ سمجھوتے کے لئے آمادگی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔
پیپلز پارٹی کے معتمد ذرائع نے بتایا کہ پارٹی سندھ کی طرح بلوچستان میں بھی اپنے بل بوتے پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے، پنجاب اور وفاق میں حکومت سازی کے لئے بظاہر عددی اکثریت رکھنے والی پارٹی کو محض نمائشی عہدوں کے عوض مدد دے کر اپنے منشور اور آئندہ عام انتخابات تک اپنی سپیس بڑھانے کے بنیادی مفادات پر سمجھوتہ کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی بلوچستان میں محض حکومت بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتی، بلوچستان کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لئے پارٹی کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ مرکز میں 17 وزارتوں کو ختم کر کے اختیارات کو صوبوں میں منتقل کرنا ضروری ہے۔ اسی ایجنڈا پر پارٹی نے بلوچستان اور ملک بھر میں ووٹ مانگے اور عوام نے اس کی خاطر خواہ حمایت کی۔ پیپلز پارٹی اپنے منشور کے بنیادی نکات سے اتفاق رکھنے والی دوسری جماعتوں کو ساتھ ملا کر بلوچستان میں حکومت بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے اور اس مقصد کے لئے پیپلز پارٹی مسلم لیگ نون کے ساتھ وفاقی اور پنجاب میں اشتراک کی بھی محتاج نہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اگر پیپلز پارٹی کو وفاق میں موجود 17 فالتو وزارتوں کے خاتمہ کے لئے مسلم لیگ نون کی حمایت نہ ملی اور مرکز اور پنجاب کے ساتھ چاروں صوبوں کی گورنر شپ میں مناسب حصہ نہ ملا تو وہ پانچ سال کے لئے مسلم لیگ نون کی بیساکھی بننے کی بجائے اپنے لئے بہتر لائحہ عمل طے کرنے کو ترجیح دے سکتی ہے۔
پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کی صدارت شریک چئیرمین آصف علی زرداری اور چئیرمین بلاول بھٹو زرداری مل کر کریں گے۔اجلاس زرداری ہاؤس اسلام آباد میں ہوگا۔