ویب ڈیسک : صدر جو بائڈن نے افغانستان کے لئے اہم اعلان کردیا افغانستان کے منجمد 3.5 ارب ڈالر افغان ریلیف فنڈ میں بھیجے جائیں گے، جبکہ باقی 3.5 ارب ڈالر ستمبر گیارہ کےمتاثرین کی طرف سے دائر مقدمہ میں منجمد رہیں گے۔
رپورٹ کے مطابق اس عمل کو قانونی بنانے کے لئے امریکی صدر جو بائڈن ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کرینگے رپورٹ کے مطابق آج کسی وقت یہ ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا جاسکتا ہے جس کے بعد 20 سالہ جنگ سے چور چور افغانستان کو انسانی بنیادوں پر حاصل ہونے والی مدد کی راہ میں حائل تمام قانونی سیاسی اور خارجہ امور کی رکاوٹیں ختم ہوجائیں گی۔
یادرہے افغانستان کی بڑی آبادی کو قحط کا سامنا ہے اس فیصلے کی منظوری وائٹ ہاؤس کی نیشنل سکیورٹی کونسل نے مہینوں سوچ وبچار اور محکمہ انصاف ،محکمہ خارجہ اور خزانہ سے مشورے کے بعد دی ہے ۔ دہ افغانستان بنک کے اثاثوں میں کرنسی ، بانڈز اور سونا شامل ہے۔ جس کا زیادہ تر حصہ گذشتہ 20 سالوں سے امریکا سمیت مغرب سے حاصل ہونے والا غیرملکی زرمبادلہ ہے۔
امریکا کے فیڈرل ریزرو بینک میں افغانستان کے قریب سات بلین ڈالرز کے فنڈز موجود ہیں، جنہیں افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد امریکی حکومت نے منجمد کر دیا تھا۔ طالبان نے اگست 2021 میں اقتدار سنبھالتے ہی اس رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا تھا تاہم ان پر لگی پابندیوں کے سبب یہ رقم ان کی حکومت کے حوالے نہیں کی جا سکی۔ یہ صورتحال اس وجہ سے مزید پیچیدہ ہو گئی ہے کیونکہ نائن الیون حملوں میں مرنے والوں کے اہل خانہ نے ستمبر2021 امریکی عدالت سے رجوع کر لیا تھا کہ اس رقم کو انہیں بطور ہرجانہ دیا جائے۔
امدادی گروپس اور بین الاقوامی ایجنسیوں کا اندازہ ہے کہ قریب 23 ملین افراد کو، جو ملک کی نصف آبادی بنتی ہے، سخت بھوک کا سامنا ہے جبکہ نو ملین یا 90 لاکھ افراد قحط سالی کے کنارے تک پہنچ چکے ہیں۔ حالت یہ ہو گئی ہے کہ لوگ اشیائے خوراک خریدنے کے لیے ذاتی اشیا بیچنے، گھر کو گرم رکھنے کے لیے فرنیچر تک جلانے اور یہاں تک کہ پیسوں کے لیے اپنے بچے تک فروخت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں