جیل یا رہائی، عدالت نے حمزہ شہباز کی قسمت کا فیصلہ سنا دیا

11 Feb, 2020 | 01:35 PM

Sughra Afzal

(سٹی 42) لاہور ہائیکورٹ نے  اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز شریف کی قسمت کا فیصلہ سنا دیا۔

جسٹس سید مظاہرعلی اکبر نقوی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے منی لانڈرنگ کیس میں حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت پر سماعت کی، حمزہ شہباز کی جانب سے سلمان اسلم بٹ ایڈووکیٹ عدالت پیش ہوئے، سلمان بٹ نے دلائل دیئے کہ  سال 2013 سے 2017 تک 108 ملین کے گفٹ حمزہ شہباز کو ملے، ان گفٹس کا نیب الزامات سے کوئی تعلق نہیں ہے، نیب نے حمزہ شہباز پر منی لانڈرنگ کرنے کا الزام لگایا ہے، اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعات لاگو نہیں کی جا سکتیں۔ جس پر جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ کیوں؟کس وجہ سے دفعات  لاگو نہیں ہو سکتیں، جس پر سلمان بٹ نے جواب دیا کہ یکم جون 2005ء سے فروری 2010ء کے دوران 3 قوانین آئے، جج نے کہا کہ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2007ء میں آیا کیسے قانون لاگو نہیں ہو سکتا۔

وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ منی لانڈرنگ کا پہلا آرڈیننس 2007 میں آیا، یہ آرڈیننس 90 روز بعد ختم ہو گیا، 6 نومبر 2009 میں دفعہ 41 شامل کی گئی،ماضی سے اطلاق کر دیا گیا، دوسرا آرڈیننس 2009، منی لانڈرنگ کا قانون 2010 میں آیا، چیئرمین نیب نےوارنٹ گرفتاری جاری کئے، اختیار نہیں تھا۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ حمزہ شہباز کے اثاثوں میں کتنا اضافہ ہوا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ حمزہ شہباز کے اثاثوں میں 417 ملین روپے کا اضافہ ہوا، عدالت نے کہا کہ آپ اس کا کوئی ذریعہ بتائیں گے؟ وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ بیرون ملک ترسیلات ذرائع آمدن تھے،عدالت نے کہا کہ ہم ابھی بھی مطمئن نہیں کہ ملزم کے ذرائع آمدن کیا تھے۔

عدالت نے وکلا ء کے دلائل سننے کے بعد حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت خارج کردی۔

واضح  رہے کہ  نیب لاہور نے 11 جون 2019 کو  ضمانت منسوخ ہونے پر کمرہ عدالت سےاپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی  حمزہ شہباز کو  گرفتار کیا تھا،  حمزہ شہباز لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید ہیں، لاہور ہائیکورٹ حمزہ شہباز کی رمضان شوگر مل کیس میں ضمانت منظور کرچکی ہے جبکہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کا کیس عدالت میں چل رہا ہے۔

مزیدخبریں