(سٹی42) اشیائے خورونوش پر 18 ارب کی سبسڈی کا عوام کو کیا فائدہ ہوگا؟ اینکر ریحان طارق نے حقائق سے پردہ فاش کردیا۔
24 نیوز کے پروگرام دس تک میں اینکر ریحان طارق نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر، سو دنوں میں نئے پاکستان کی تعمیر ، انڈے ، مرغی ،کٹے او رلنگر خانے کے بعد مہنگائی سے پریشان عوام کو اب ریلیف دینے کیلئے50ہزارپرچون کی دکانیں کھولنے کیلئےمنجن بیچا جا رہا ہے۔ مہنگائی سے عوام کیساتھ ساتھ حکومتی صفوں میں بھی پریشانی ، بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے، وزیر اعظم نے آج تک اپنی کابینہ کو مہنگائی کم کرنے کا فارمولہ نہیں بتایا اور نہ ہی کابینہ کی جانب سے وزیر اعظم کو ایسا کوئی گر بتایا گیا کہ جس سے مہنگائی کا خاتمہ ہوسکے۔ اب وزیر اعظم نے کابینہ کو ایک بلینک چیک دے دیا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے مہنگائی کم کر کے دکھائیں ، کاش وزیر اعظم ایسی تیاری اب سے چند ماہ پہلے کر لیتے ،اور عوام کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ، کاش وزیر اعظم عمران خان اپنی کابینہ کو یہ کہتے کہ کچھ بھی کرو ملک میں مہنگائی نہیں ہونی چاہیے۔وفاقی کابینہ نے مہنگائی کنٹرول کرنے اور روزگار کے مواقع پیداکرنے کیلئے 50 ہزار پرچون دکانیں کھولنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔حکومت دکانیں کھولنے کیلئے 5لاکھ روپے تک قرض فراہم کرے گی، جس کیلئے 25 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ یعنی مہنگائی کو قابو میں کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے ایک نیا مذاق کیا جارہا ہے۔
اسلام آباد میں وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونے والے خصوصی اجلاس میں وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ ڈاکٹر ثانیہ نشتر، چئیرمین یوٹیلیٹی اسٹورز ذوالفقار علی خان، وزارتِ خزانہ، صنعت و پیداوار اور سماجی تحفظ ڈویژن کے وفاقی سیکرٹریز ، ایم ڈی یوٹیلیٹی اسٹور اور دیگر سینئر افسران شریک ہوئے۔ اجلاس میں غریب اور تنخواہ دار طبقے کو مہنگائی سے ریلیف فراہم کرنے اور اشیائے ضروریہ سستے نرخوں پر فراہمی کے حوالے سے اقدامات پر غور کیا گیا۔ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے عوام کو ریلیف دینے کیلئے 18 ارب روپے کا پیکج دینے کا اعلان کیا ہے۔ جن میں سے 10ارب روپے فوری طور پر ادا کئے جائیں گے، اس وقت ملک بھر میں 5 ہزار سے زائد یوٹیلٹی سٹورز ہیں، 22 کروڑ آبادی والے ملک میں صرف چند ہزار سٹورز نا کافی ہیں ۔ جبکہ کروڑوں کی آبادی کو صرف 18ارب کی ریلیف دی جا رہی ہے ، فروری سے جون 2020 تک ہر ماہ یوٹیلٹی اسٹورز کو 2 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔ یعنی 22 کروڑ عوام کو ماہانہ 35 روپے کی سبسڈی ملے گی ۔ اور اگر اس سبسڈی کو دنوں پر تقسیم کیا جائے تو 22 کروڑ آبادی کو یومیہ ایک روپیہ تین پیسے کی سبسڈی دی جائے گی۔ یقینا اس سبسڈی سے براہ راست عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ، اس کی بنیادی وجہ یوٹیلٹی سٹورز کی تعداد ، ڈسٹریبیوشن کا نظام اور کرپشن کے خطرات ہیں۔ وزیر اعظم کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی سے صرف چار سے پانچ فیصد شہری ہی مستفید ہوسکیں گے۔
پروگرام کے میزبان نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف نے ماضی میں 2 ارب روپے کی لاگت سے سستی روٹی سکیم شروع کی ، لیکن اس سکیم کا پیسہ بھی بابو کھا گئے اور عوام کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچا ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ 18 ارب روپے کی سبسڈی کا فائدہ عام آدمی کو کیوں نہیں ہوگا؟ اس کا پہلا نقطہ ذخیرہ اندوزی اور کرپشن ہے ۔1971 میں یوٹیلٹی سٹورز کے قیام سے لے کر آج تک یہ تاریخ رہی ہے کہ سبسڈی پر دی جانے والی اشیاء عام مارکیٹ میں فروخت ہوتی رہیں، طاقتور اور صاحب حیثیت افراد نے ان سٹورز سے سبسڈائز اشیاء خرید کر ذخیرہ کیں۔ یوٹیلٹی سٹور ز کے ملازمین اور حکومتی اہلکاروں نے بھی جی بھر کا کرپشن کی۔ بغیر کسی راشن کارڈ اور نشانی کے لوگ سٹورز سے خریداری کرتے ہیں ، یعنی یہاں بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا رواج ہے۔ پھر یہ وقتی انتظامات کے ذریعے عام آدمی کو لولی باپ کیوں دیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم کے مہنگائی کے خلاف اقدامات کا اگلا مرحلہ سستے تندوروں کی تعداد 10 ہزار سے بڑھا کر 50 ہزار تک کرناہے۔ اس پر بھی سوال اٹھتا ہے کہ یہ سکیم شہباز شریف کی سستی روٹی سکیم سے مختلف کیسے ہوگی ؟ اس کوکرپشن سے کیسے پاک رکھا جاسکے گا؟
انھوں نے مزید کہا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے معاشی خود اختیاری کیلئے اقدامات کرنے کی بجائے سبسڈی ، خیرات اور مالی امداد پر زور دیا گیا ہے۔