کہاوت بڑی ہی تلخ ہے لیکن یہ اُس بیوقوف کے لیے بولی جاتی ہے جو پکڑا جائے تو اُسے دو آپشن دئیے جائیں کہ یا تو وہ سو پیاز کھالے یا پھر سو جوتے کھالے لیکن ہمارے ہاں کم و بیش ساری آئینی اور غیر آئینی حکومتوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ اسی طرح جیسے کہاوت والے شخص نے کیا تھا کہ کبھی وہ پیاز کھانے پر راضی ہوتا اور دو ایک کے بعد جوتے کھانے کو تیار ہوجاتا اور یوں چلتے چلتے سارا پیاز اور سارے جوتے کھا جاتا ہے ،کچھ ایسا ہی حال ہماری شہباز سرکار کے محکمہ خزانہ کا بھی ہے جو پہلے ایسے فیصلے سامنے لاتے ہیں جو عوامی امنگوں کے برعکس ہوتے ہیں لیکن جب ری ایکشن آتا ہے تو فیصلہ واپس لے لیتے ہیں یعنی پیاز سے انکار کر دیتے ہیں اور جب پڑتے ہیں تو پھر پیاز مانگنا شروع کر دیتے ہیں ابھی دو دن پہلے ہی ایک نوٹیفیکشن جاری ہوا جس کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے ساتھ ایک موبائل اور 1200 ڈالرتک کی مالیت کا سامان لا سکتے ہیں اس نوٹیفیکشن کو جو کہ کسی یوتھئے ایف بی آر کے افسر نے حکومت کو پھنسانے کے لیے تحریر کیا تھا جاری کیا گیا تو وہی ہوا جس کا ڈر تھا ، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا ایسا ری ایکشن سامنے آیا جا ناقابل بیان ہے میں اُس ری ایکشن میں جو کچھ کہا گیا اسے صرف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈیش کی زبان میں ہی بیان کرسکتا ہوں لیکن تیر تو کمان سے نکل چکا تھا اور وہ بھی ایسے وقت میں جب بانی تحریک انصاف عمران کان اپیل کر رہے تھے کہ بیرون ملک سے کوئی سرمایا اپنے وطن میں نا لائے تاکہ حکومت زرمبادلہ کے حوالے سے دباؤ میں آئے اور این آر او دے دے ۔
بانی کی اس سول نافرمانی کی کال کو ہی بڑھاوا دینے کے لیے ایف بی آر کا یوتھیا ربوٹ سامنے آیا اور اس نے اس نوٹیفیکشن کے ذریعے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو یقین دلا دیا کہ یہ حکومت اُن کی اور اُن کے گھر والوں کی دشمن ہے جب اس پیاز اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کو کھاتے کھاتے محکمہ خزانہ تھک گیا تو اب خیال آیا کہ اس نوٹیفیکشن کو واپس لے لیا جائے اور اب خبر آئی ایف بی آر نے بیگج رولز میں ترمیم کا فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے، اور کہا گیا ہے کہ اس ترمیم سے غلط تاثر لیا گیا ہے اور کہ 1200ڈالر سے زائد کی اشیا بھی لائی جاسکتی ہیں یہ غلط تاثر پیدا ہوا کہ پرسنل بیگج کی حد امریکی ڈالر تک مقرر کر دی گئی ہےیہ غلط فہمی ملک کے مختلف ذرائع ابلاغ پر گردش کر رہی ہے، نوٹیفیکشن میں بیگیج رولز 2006 میں دی گئی اصطلاح تجارتی مقدار کوبیان کیا گیا تجارتی مقدار سے مراد سامان، جو بظاہر تجارتی مقاصد یا مالی فائدے کے لیے لایا گیا ہو اس مسودے میں تجویز کی گئی ترمیم کا مقصد بیگیج کی سہولت کے غلط استعمال کو روکنا ہے1200 امریکی ڈالر کی یہ حد کسی مسافر کے لیے ذاتی استعمال یا تحفے کی اشیاء پر لاگو نہیں ہوتی ،وضاحت کی جاتی ہے کہ نوٹیفکیشن میں مذکورہ 1200 امریکی ڈالر کی حد ذاتی استعمال پر لاگو نہیں ہوتی۔
تاثر کو سختی سے مسترد کیا جاتا ہے کہ کسٹمز امریکی ڈالر سے زیادہ مالیت کے ذاتی سامان کو ضبط کرے گا،نوٹیفکیشن کو عوامی سطح پر، خصوصاً سوشل میڈیا پر، وسیع پیمانے پر غلط سمجھا گیا ہے، مزید الجھن کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مسودہ نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا ہے، اور یوں پیاز اور جوتوں کے حوالے سے ایف بی آر نے سچ کردکھایا اور اب یہ فیصلہ کون کرئے گا کہ کون سا مال تجارتی ہے اور کون سا ذاتی مالیت کا تعین کیا ہوگا اچھا بھلا کام چل رہا تھا لیکن پھر آرڈر ہوا یوتھیا ربوٹ کو اور اُس نے وہ کردکھایا جو حکومت کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا لیکن اب پچتھائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت جو نقصان ہونا تھا ہوگیا اب وضاحت مزید الجھاو پیدا کر رہی ہے .
ہماری حکومت کو یہ بات کب سمجھ میں آئے گی کہ تمام اداروں بشمول عدلیہ سے یوتھیا ربورٹ پکڑنے اور انہیں گھر بجھوائے بغیر کوئی بھی کام خوش اسلوبی سے نہیں کیا جاسکتا یہ ربورٹ ہر ادارے کی جڑیں خان کے عشق میں کھوکھلی کر رہے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ پی ٹی وی اورحکومتی سوشل میڈیا ٹیم میں یہ ربورٹ آج بھی بھاری تنخواہوں پر یہ کام کر رہے ہیں یہ میرٹ کے بگیر بھرتی ہونے والے افراد صرف ایک کام جانتے ہیں اور وہ یہ کہ کیسے حکومت کو گرانا ہے اور خان کو واپس لانا ہے اور اس کام میں وہ ہر حد سے گزر جانے کو تیار ہیں یہ تو بات مرکز کی تھی پنجاب میں بھی صورتحال کچھ اس سے مختلف نہیں ہے پنجاب میں یہ ربورٹ ایسے ایسے اقدامات کر رہے ہیں کہ اللہ کی پناہ ، پنجاب حکومت کے سارے ترجمان وزیر مشیر اور ممبران بتائیں کہ مریم نواز کے ٹک ٹاک بنوانے کی ویڈیوز کیسے لیک ہوتی ہیں ، کیسے پتہ چلتا ہے کہ مریم نواز کون سا کام کہاں کرنے والی ہیں اور اُس کے خلاف مہم کیسے چلانی ہے یہ سب وہی ربورٹ ہیں جو بھرتی تو عمران خان کے دور میں ہوئے " غریب کی نوکری نا جائے " کے نام پر خود کو بچانے مین کامیاب ہوئے اور اب وہ حکومتی جڑوں کو کاٹ رہے ہیں اس کی اس ایک اور مثال حاضر ہے۔
سوشل میڈیا پر جرائم اور فیک نیوز کا استعمال نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کو دیے اختیارات منسوخ،سوشل میڈیا جرائم کے خلاف کاروائی کے لیے اختیار 17 اکتوبر 2024 سے دیا گیا تھا،وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے نیشنل سائبر کرائم نویسٹی گیشن ایجنسی کو رولز کے تحت بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا،وزارت داخلہ اور وزارت قانون کی جانب سے اعتراضات کے بعد اختیارات واپس لے لیے گیے،نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کو پارلیمانی ایکٹ کے ذریعے بنایا جائے گا اور اختیارات دیئےجائیں گے ، اگر یہ سب واپس ہی لینا تھا تو پھر لاگو کیوں کیا گیا؟