پراجیکٹ عمران کی مسماری مکمل ہو بھی جائے تو ملکی حالات پر کتنا اثر پڑ سکتا ہے؟“ ہائبرڈ نظام“ کے نام تباہی سوچا سمجھا منصوبہ اس قدر بربادی کر چکا ہے کہ اب سنبھلنے میں کافی وقت لگے گا۔ ہمارا المیہ ہی یہی ہے کہ خرابی کی جڑ کو اکھاڑ پھینکنے کے بجائے خود کاشت کی گئی زہریلی جڑی بوٹیاں اوپر اوپر سے توڑ کر توقع لگا لیتے ہیں کہ آئندہ یہ زمین سونا اگلے گی۔ مارشل لا، بالواسطہ مارشل لا کی طرح ہائبرڈ نظام کا تجربہ بھی پٹ گیا۔ نہ صرف پٹ گیا بلکہ اپنے تخلیق کاروں کے چہروں پر بھی سیاہی مل گیا۔ اب کہا جارہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی نئی قیادت پچھلی قیادت کے تجربات نہیں دہرائے گی بلکہ ایک نئے انداز سے معاملات کو آگے لے کر چلے گی۔ وہ نیا انداز کیا ہوگا؟ کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کا دور حکومت ملک کو ہر لحاظ سے پیچھے لے گیا۔ اقتصادی اور سفارتی محاذوں پر تو پسپائی ہوئی ہی تھی اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی بری طرح سے تقسیم کردیا گیا۔
یہ بات بھی درست ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان، ان کے اہل خانہ اوربعض ساتھیوں کے خلاف کرپشن کے سنگین مقدمات ہیں، 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملے کرکے آرمی چیف کے خلاف بغاوت کرانے کی کوشش کسی بھی صورت میں قابل معافی نہیں۔ لیکن کیا صرف عمران خان کی گرفتاری سے ہی سارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اس مرتبہ معاملہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ گمبھیر ہے۔ اپریل 2022 میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ریٹائر اور کچھ حاضر سروس عناصر نے اپنے مفادات کیلئے ریاست کے خلاف جو گھناؤنا کھیل کھیلا اس نے پاکستان کے اداروں کو ہی نہیں سالمیت کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔اگر ان عناصر کو قانون کے مطابق انجام تک نہیں پہنچایا جاتا تو مستقبل میں بھی خطرات کی تلوار لٹکتی رہے گی۔
یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جس ملک پر بے یقینی کے سائے ہوں وہاں نہ تو کوئی باہر سے سرمایہ کاری کرنے کا خطرہ مول لے گا نہ ہی عوام سکھ کا سانس لے پائیں گے۔ہم بطور قوم جس موڑ پر آچکے ہیں وہاں سب سے مہلک چیز ہی کنفیوژن ہے۔ پاکستان کا تشخص اور عوام کا اعتماد بحال کرنا ہے تو اسے ہر قیمت پر ختم کرنا ہوگا۔ہماری اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ نے ملک کے اندر ہی گند نہیں ڈالا بیرون ملک بھی منصوبہ بندی سے پاکستانیوں کو ورغلا کر گھٹیا سیاست اور پراپیگنڈہ شروع کرایا جس نے ایسا طوفان بدتمیزی کھڑا کردیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ جنرل باجوہ اپنے ڈی جی آئی ایس پی آر اس وقت کے میجر جنرل آصف غفور اور دوسرے افسروں کے ساتھ بیرون ملک خصوصاً برطانیہ جاکر پی ٹی آئی کے عہدیداروں کے مہمان بنتے تھے۔ سوشل میڈیا ایکٹویٹس سے ملاقاتیں کی جاتیں۔ پاکستانی سفارتخانے میں موجود آئی ایس آئی کے حکام بھی اس حوالے سے متحرک رہتے تھے۔
بیرون ملک گند مچانے میں اس وقت کی عدلیہ کا کردار بھی بہت شرمناک رہا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار ریٹائر ہوتے ہی پی ٹی آئی کے لیڈروں کے ساتھ نام نہاد ڈیم فنڈ ڈرامے کیلئے برطانیہ چلے گئے۔ اس طرح بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو شہ ملی کہ آنے والے کئی سال تک پی ٹی آئی کی حکومت ہی قائم رہے گی۔ عمران دور کا ایک بہت بڑا اور سنگین مسئلہ مافیاز اور کارٹلز کا حکومت پر مکمل کنٹرول حاصل کرلینا ہے جو آج بھی نہیں ٹوٹ سکا۔ ابھی تین روز قبل کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک بہت بڑے سرمایہ کار نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اگلی حکومت بھی ہائبرڈ ہونی چاہئے، تاکہ فوج سیاستدانوں کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں رکھ سکے۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ پی ٹی آئی دور میں پاکستان اور پاکستانیوں کا خون چوسنے کے بعد بھی ابھی ان عناصر کی پیاس نہیں مٹی۔
اسی طرح بعض اینکر ہیں جو آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو براہ راست اقتدارسنبھالنے کا کہہ رہے ہیں تاکہ ان کے اربوں کے اثاثے محفوظ رہیں اور وہ ٹاؤٹ ہونے کی بنا پر لوٹ مار کا سلسلہ بھی جاری رکھ سکیں۔کارٹلز کو مکمل طور پر قابو کئے بغیر ملک کی حالت کسی طور سدھاری نہیں جاسکتی کیونکہ یہ معاشی دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ ٹی ٹی پی اوربعض دوسرے گروپوں کے سبب حقیقی دہشت گردی بھی عفریت بن کر کھڑی ہو چکی ہے۔ یقینا اس حوالے سے ایک نیا اور مکمل آپریشن کرنا ہوگا۔ امن و امان قائم کئے بغیر سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے سمیت کسی بھی شعبے میں کوئی پیش رفت ہوسکتی ہے نہ ہی اسکے ثمرات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔کسی کو اچھا لگے یا برا یہ بہت بڑی حقیقت ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ کسی مسلح تنازعے میں الجھنا کسی طور سود مند ثابت نہیں ہوسکتا۔
یہ تاثر یہ بھی ہے کہ بعض سازشی عناصر کی کوشش ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان لڑائی ہو تاکہ وہ پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرسکیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو ہٹا کر 12 جماعتی اتحاد نے سولہ ماہ تک جو حکمرانی کی وہ کانٹوں کی سیج ثابت ہوئی۔ یہ المیہ رہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی اندرونی کشمکش اور عدلیہ کے حکومت کے خلاف کھل کر فریق بننے کے سبب عوام کو باور ہی نہ کرایا جاسکا کہ ملک کو اس حالت میں پہنچانے کے اصل مجرم کون ہیں؟ اس تمام عرصے میں ایک اور افسوسناک پہلو بڑی سیاسی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ ن کا عوام سے رابطہ نہ رکھنا بھی رہا۔ وجوہات کچھ بھی ہوں سیاسی جماعتوں کو ہر سطح پر متحرک رہنا چاہیے۔ابھی چند ماہ قبل ہی ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے ملک میں افراط زر کی 65 فیصد کی خوفناک شرح ہونے کے باوجود صدارتی انتخابات جیتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے عوام سے رابطہ نہیں توڑا اور اسی بنا کر قوم کو یہ یقین دلانے میں کامیاب رہے کہ مہنگائی کی اس کمر توڑ لہر کی وجوہات ان کی پالیسیوں کے سبب نہیں بلکہ کچھ ایسے عوامل ہیں جو ناگزیر ہوچکے تھے۔ بہر حال جو ہونا تھا ہوچکا توقع ہے کہ نگران حکومت نئی مردم شماری کے تحت جلد از جلد حلقہ بندیاں کرانے کیلئے الیکشن کمیشن کی بھرپور معاونت کرے گی تاکہ اگلے عام انتخابات زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کے عرصے میں کراکے اقتدار منتخب نمائندوں کو سونپ دیا جائے۔
پی ٹی آئی کا مستقبل کیا ہوگا یہ اب کوئی راز نہیں رہا، جس پارٹی پر کرپشن کے بڑے مقدمات کے ساتھ 9 مئی جیسے سنگین کیس بھی بن جائیں وہ قانون کے شکنجے سے نہیں نکل سکتی۔ عمران خان جیل میں رہیں یا ضمانت کراکے باہر آجائیں اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ ان کو بیرون ملک جانے کی سہولت فراہم کی جائے۔ان کو سزا سنانے کے بعد گرفتار کرکے سٹریٹ پاور کا غبارہ بھی پھاڑ دیا گیا، ابھی پارٹی میں مزید توڑ پھوڑ ہوگی نئے مقدمات بھی بنیں گے، مزید سزائیں بھی ہوں گی۔ یوں مقبولیت کے دعوے بھی فضا میں تحلیل ہوتے نظر آئیں گے۔