ملک اشرف : لاہور ہائیکورٹ نےریپ کیسز کی تحقیقات خاتون پولیس افسر سے کروانے سے متعلق فیصلہ جاری کرتےہوئے کہاکہ ملک میں خواتین کو جنسی تشدد سے تحفظ دینا نئے قوانین بنانے سے زیادہ ضروری ہے، اینٹی ریپ آرڈیننس پرعملدرآمدکیا جائے، قوانین پر عملدرآمد نہ کرنا ہی عوام میں مایوسی اور ناانصافی کی سوچ کو پیدا کرتا ہے۔
تفصیلات کےمطابق جسٹس علی ضیا باجوہ نے9صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔تحریری فیصلہ میں کہا گیاکہ عدالت قانون پر عملدرآمد نہ کرنے کی سنگین خلاف ورزی کو نظر انداز نہیں کر سکتی،اینٹی ریپ آرڈیننس پر عمل نہ کر کے پولیس نے قانون کی ہزاروں دفعہ سنگین خلاف ورزی کی، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی وجہ سے حکومت نے چند ریپ کیسز کے ملزمان کی گرفتاری کیلئے بھرپور وسائل کا استعمال کیا، جنسی زیادتی کے ان متاثرین کے ساتھ بڑی ناانصافی ہے جن کے کیسز کی اسی سطح پر تفتیش نہیں کی گئی ،مخصوص کیسز میں انصاف کی فراہمی ہی بڑی نا انصافی ہے،قوانین پر عملدرآمد نہ کرنا ہی خرابی کی اصل جڑ ہے، ریاستی حکام وسائل اور قابلیت کی کمی کے باعث جدید قوانین پر عملدرآمد میں بے بس ہو چکے ہیں، قوانین پر عملدرآمد نہ کرنا ہی عوام میں مایوسی اور ناانصافی کی سوچ کو پیدا کرتا ہے، جنسی زیادتی کے جرائم کو ختم کرنے کیلئے اینٹی ریپ آرڈیننس جیسے قانون کی نہایت ضرورت تھی، اینٹی ریپ آرڈیننس پر عملدرآمد کرنا چیلنج تھا بدقسمتی سے حکومت آج تک اس قانون پر عملدرآمد نہیں کر سکی۔
لاہورہائیکورٹ نے فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک میں قوانین پر عملدرآمد کرنا ہی سب سے بڑا چیلنج ہے، اینٹی ریپ آرڈیننس پر عملدرآمد نہ کرنا فوجداری جرم کے زمرے میں آتا ہے، اینٹی ریپ آرڈیننس پر عملدرآمد سے راہ فرار اختیار کرنا آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے، فیصلہ میں جسٹس علی ضیاء باجوہ نے مزید کہا ہے کہ اینٹی ریپ آرڈیننس پر عملدرآمد نہ کرنے کے پولیس کے تمام جواز ناقابل قبول ہیں، آئی جی پنجاب فیصلے کی روشنی میں اینٹی ریپ آرڈیننس پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں،پولیس نے 7 ماہ کے دوران 34 ہزار 249 بار قانون کی خلاف ورزی کی، سنٹرل پولیس آفس پنجاب کی رپورٹ نے انویسٹی گیشن ایجنسی کی کند ذہنی اور نااہلی کا انکشاف کیا، اربوں روپے ملنے کے باوجود قانون پر عملدرآمد نہ کرنے کے استفسار پر ڈی آئی جی نے تسلی بخش جواب نہ دیا، جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات کسی بھی خاتون کی زندگی تباہ کر دینے والے ہوتے ہیں، ریپ متاثرین کو سب سے پہلے غیر تربیت یافتہ تفتیشی افسروں، تلخ طبی معائنے، طویل ٹرائل، شرمناک جرح، سماجی بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اعلی عدلیہ اور قانون سازوں نے متاثرہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے کوششیں کیں مگر حالات نہیں بدلے، زینب قتل اور موٹروے گینگ ریپ کیس کے بعد حکومت نے اینٹی ریپ آرڈیننس اور کریمنل لاء آرڈیننس نافذ کیا جسے لوگوں نے وقت کی اہم ضرورت قرار دیا، اینٹی ریپ آرڈیننس پارلیمان کا اچھا مگر اس پر عملدرآمد کروانا ریاست کی ذمہ داری ہے، حکومت کو قوانین بنانے سے قبل وسائل، عملدرآمد کی قابلیت کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔
فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ بدقسمتی سے اینٹی ریپ آرڈیننس کے موثر عملدرآمد کیلئے اس کو نفاذ سے قبل اور بعد میں ریاستی اداروں تک پہنچایا نہیں گیا، کسی بھی قانون کے نفاذ سے قبل اس کو گراس روٹ لیول اور متعلقہ اداروں تک پہنچانا چاہئے، آرڈیننس لاگو ہونے کے باوجود کیسز کی تحقیقات کیلئے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ہی تشکیل نہیں دی گئی، ریپ کیسز کی تحقیقات کیلئے قانون خاتون گزیٹڈ افسر کو تحقیقات کیلئے مقرر کرنے کا متقاضی ہے، فیصلے کا آغاز سلطنت عمان کے قوانین اور تشریح کی کتاب کے اقتباس سے کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ۔قوانین پر عدم عملدرآمد کے نتیجے میں معاملات اختلافات اور تنازعات کی صورت میں عدالتوں میں آتے ہیں، ججز کا کام ہے کہ وہ ان تنازعات اور اختلافات کو اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر بہترین فیصلے کریں۔اس کیس میں ملزم یاسر نے جنسی زیادتی کے مقدمہ میں ضمانت کیلئے رجوع کیا تھا۔عدالت نے ملزم کے وکیل کے تفصیلی دلائل کے بعد درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دی۔