(قیصر کھوکھر) تنخواہوں میں بہت کم اضافے سے سرکاری ملازمین کو بڑی عید پر بڑی خوشی نہ مل سکی، افسران کی اکثریت اداس ہے۔جبکہ پنجاب سول سیکرٹریٹ کے افسران کی تنخواہوں میں ڈیڑھ سو فیصد اضافہ کیا گیا ہے، گریڈ ایک سے گریڈ سولہ تک کے سیکرٹریٹ ملازمین کی تنخواہ میں کوئی بھی اضافہ نہیں کیا گیا ۔ اس وقت پٹرول اور ڈالر کی اونچی اڑان ہے اور مسلسل اضافہ کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا ایک نیا دور شروع ہو گیا ہے جس سے مہنگائی کا جن حکومت کے کنٹرول سے باہر ہوچکا ہے۔
ایک سرکاری ملازم کا تنخواہ میں گزارہ مشکل تر ہو گیا ہے، ایک سرکاری ملازم جس کی ماہانہ تنخواہ بیس ہزار روپے ہے اور اس کے چار بچے، ایک بیوی ہے، وہ ہیلتھ، ایجوکیشن، کچن اور دیگر اخراجات کیسے پورے کر سکتا ہے، ہیلتھ اور ایجوکیشن کے اخراجات کنٹرول سے باہر ہو چکے ہیں، تعلیمی اداروں کی فیسیں اورادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، اگر ایک بچہ بیمار ہو جائے تو اس کے علاج معالجے کے اخراجات ہی اتنے ہیں کہ ایک تنخواہ خرچ ہو جاتی ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور نجی ہسپتال عوام کو لوٹ رہے ہیں۔
نجی سکولوں میں بچوں کی فیسوں میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے اور ایک سرکاری ملاز م کا اپنے بچوں کو ایلیٹ سکولوں میں تعلیم دلوانا مشکل تر ہو گیا ہے ۔ سرکاری سکول تعلیم سے فارغ ہیں اور نجی تعلیمی اداروں میں فیسوں کے نام پر تعلیم کو نیلام کیا جا رہا ہے، کسانوں کے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ کھاد اور بیج کی قیمتوں میں بھی ہوش ربا اضافہ ہوچکا ہے۔ ایک طرف توکسان کو نہری پانی ملتا نہیں۔ دوسری جانب ٹیوب ویل کا پانی لگانا انتہائی مہنگا ہو گیا ہے۔ کہا جا رہاہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس فیصلے سے مہنگائی کا ایک نیا دور شروع ہو جائے گا اور دیہی علاقوں میں زندگی گزارنا مشکل ہو جائے گا۔ معاشرے میں ایک غیر یقینی کی سی صورتحال ہے۔کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور کون حکومت چلا رہا ہے اور مہنگائی کس کے کنٹرول میں ہے۔ مہنگائی کا جن دن بہ دن بے قابو ہو تا جا رہا ہے۔
انتظامیہ مکمل طور پر فیل ہو تی جا رہی ہے۔ عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا ہے، پنجاب سول سیکرٹریٹ کے گریڈ ایک سے گریڈ سولہ تک کے ملازمین اس وقت سراپااحتجاج ہیں کہ ان کا موجودہ تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا، حکومت اپنے طور پر بہت کچھ کر رہی ہے۔ ایک عام آدمی کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ نیب کیا کر رہی ہے۔ حکومت کی کارکردگی کیا ہے، گرفتاریاں کس کی اور کیوں ہو رہی ہیںاور حکومت کی مقبولیت کا گراف کہاں پر پہنچ گیا ہے۔
عام آدمی کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ بازار میں انہیں اشیاءمل رہی ہیں اور کس ریٹ پر مل رہی ہیں۔ بجلی ملی رہی ہے اور کس ریٹ پر مل رہی ہے ، عوام کی ایک بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے، ہر حکومت آتی ہے اور عوام سے الیکشن کے دوران مہنگائی کو قابو کرنے کا نعرہ لگاتی ہے اور پھر اقتدار میں آ کر عوام کو بھول جاتی ہے۔ کچھ یہی حال موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت کا ہے۔حکومت نے نون لیگ اور پی پی پی کی قیادت پر بھی الزامات لگائے مگر ابھی تک ان سے بھی ایک پائی بھی وصول نہیں کی جاسکی جبکہ حکومتی نظام چلانے کیلئے حکمرانوں کو آئی ایم ایف کے در پر بھی جانا پڑرہا ہے، جبکہ مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح کے باعث عام آدمی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
اب تبدیلی کیلئے موجودہ حکومت کو ووٹ دینے والے بھی پریشان اور شرمندہ دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت کیا کرنے جا رہی ہے، مہنگائی کیسے کنٹرول ہوگی یہ وزراءاور منتخب نمائندے بھی عوام کو بتانے سے قاصر ہیں جس کے باعث ملک میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ حکومت کا سارا زور اس وقت اپوزیشن کے احتساب پر ہے ۔ عوام کو ریلیف دینے کےلئے کچھ بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔ عید قربان آ گئی ہے اور سرکاری ملازمین کے پاس عید کی قربانی کا جانور خریدنے کیلئے پیسے نہیں ہیں۔
بکر منڈیوں میں قربانی کے جانوروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ آخر ایک سرکاری ملازم جائے تو کہاں جائے؟ اس کا کوئی بھی پر سان حال نہیں ۔ جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے اس کا راج ہے اور گریڈ ایک سے گریڈ سولہ تک کے ملازمین پریشان ہیں کہ عید کس طرح کی جائے اور محدود تنخواہ میں کیا کیا جائے جبکہ عوام میں مہنگائی کے باعث مایوسی ہے۔
لوگ بکرے خریدنے کی سکت نہیں رکھتے یہی وجہ ہے کہ اجتماعی قربانی کو ہی ترجیح دی جا رہی ہے، حکومت بھلے کرپٹ عناصر کااحتساب کرے، انہیں پکڑ کر جیلوں میں ڈالے، لیکن اتنا خیال ضرور رہے کہ غریب عوام کو مہنگائی کی چکی سے نکالے، شہری یہ سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہربار اور ہر موقع پر صرف عوام کی ہی قربانی کیوں کی جاتی ہے۔؟